آئینی مدت کی تکمیل پر الیکشن، اتحادی ڈٹ گئے

0

اسلام آباد : حکمران جماعتوں کے سربراہوں نے وزیراعظم محمد شہبازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور درپیش صورتحال میں تمام فیصلوں کا اختیاروزیراعظم کو تفویض کیا، اجلاس میں موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر ایک ہی دن ملک بھر میں الیکشن کرانے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزیراعظم کے اکثریت کھونے سے متعلق آبزرویشن ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر آڈیوز کے اندر ملک میں مارشل لاءلگائے جانے کی غیرجمہوری سوچ کی بھی شدید مذمت کی گئی۔  حکمران جماعتوں کے سربراہوں کا اعلیٰ سطح کا اہم مشاورتی اجلاس  وزیراعظم ہائوس میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سابق صدر آصف علی زرداری، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے آغاز میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی ملک وملت کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ اجلاس نے مرحوم کی مغفرت اور اہلخانہ کے لئے صبرجمیل کی دعا کی۔ اجلاس نے تھانہ سی ٹی ڈی ،کبل، سوات کے سانحہ پر افسوس اوراہلخانہ سے تعزیت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شہداءکے درجات کی بلندی اور لواحقین کے صبر کے لئے بھی دعا کی۔ اجلاس نے دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی دفاع وسلامتی کے لئے برسرپیکار افواج کے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیاگیا اور خاص طورپر سپریم کورٹ کے متنازعہ اور یک طرفہ بینچ کے فیصلوں سے پیدا ہونے والے امور پر مشاورت کی گئی جبکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر ملک میں ایک ہی دِن انتخابات کرانے کے حوالے سے پہلے سے جاری مشاورتی عمل کو اگلے مرحلے میں لے جانے، اس ضمن میں قائم کردہ کمیٹی کی مشاورت اور دیگر سیاسی رابطوں کے تناظر میں مستقبل کی حکمت عملی پر غور ہوا۔ اجلاس نے متفقہ فیصلہ کیا کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر ایک ہی دن ملک بھر میں انتخابات کرانا بنیادی نکات ہیں، جو بھی حکمت عملی طے جائے گی، ان کی بنیاد یہی دونکات ہوں گے۔ اجلاس نے وزیراعظم شہبازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور درپیش صورتحال میں تمام فیصلوں کا اختیاروزیراعظم کو تفویض کیا۔ اجلاس نے قراردیا کہ وزیراعظم شہبازشریف جو بھی فیصلہ کریں گے، اتحاد کی تمام جماعتیں اس کا بھرپور ساتھ دیں گی۔ اجلاس نے واضح کیا کہ ملک میں ایک ہی دِن شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق حکمران جماعتیں اپنے اندر سیاسی مشاورت کا عمل پہلے سے ہی شروع کرچکی ہیں اور یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اس خالصتا ً سیاسی معاملے میں سپریم کورٹ کا پنچایت کا کردار غیر مناسب ہے، انتخابات کے لئے بات چیت، افہام وتفہیم یا اتفاق رائے پیدا کرنے کاعمل سیاسی جماعتوں کا کلی دائرہ کارہے جسے وہ برسوں سے بخوبی اور کامیابی سے ادا کرتی آرہی ہیں۔ اتفاق رائے سے اجلاس نے اس معاملے کو اسی دائرے میں رکھنے پر اتفاق کیا۔ اجلاس نے سپریم کورٹ کے 19 اپریل کے فیصلے پر بھی غور کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈالتے ہوئے پھر حکم جاری کردیا کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رقم جاری کرے جو آئین میں دی گئی سکیم سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس آبزرویشن پر بھی افسوس کا اظہار کیاگیا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت اور اعتماد کھوچکے ہیں۔ یہ آبزوریشن پارلیمان اور وزیراعظم کی توہین کے مترادف اور قابل مذمت ہیں۔ سپریم کورٹ پارلیمان اور ایوان کی رائے کا احترام کرے۔ پارلیمان وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہے اور اُن پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ اجلاس نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ سے متعلق سامنے آنے والی آڈیوز پر بھی غور کیا اور ان میں سامنے آنے والی گفتگو کے نکات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔اس گفتگو سے سازش آشکار ہوگئی ہے۔ اجلاس نے قرار دیا کہ ان آڈیوز نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ فیصلے آئین کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی عناد، پسند وناپسند کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ اجلاس نے آڈیوز کے اندر ملک میں مارشل لاءلگائے جانے کی غیرجمہوری سوچ کی بھی شدید مذمت کی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم پہلے ہی 25 اپریل کو منظرعام پرآنے والی آڈیو سے سامنے آنے والی گفتگو کو تسلیم کرچکے ہیں جس کے بعدکوئی شک نہیں رہتا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ایک منتخب وزیراعظم اور منتخب جمہوری اتحادی آئینی حکومت کے خلاف سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک منتخب وزیراعظم کو توہین عدالت کی جعلی ، غیرآئینی وغیرقانونی کارروائی کے ذریعے عہدے سے ہٹانا ایک سنگین اورناقابل معافی جرم ہے۔ اجلاس نے قرار دیا کہ اِن آڈیوز کے سامنے آنے کے بعد تین اور 8رکنی بنچ کے متنازعہ فیصلوں کے پس پردہ اصل عوامل مزید واضح ہوکر سامنے آچکے ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمان کی قراردادوں پر عملدرآمد کیاجائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.