سپریم کورٹ کا کام پنچائت یا ثالثی کرنا نہیں، شہباز شریف

0
  1. اسلام آباد : وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ذاتی اقتدار کے حصول کیلئے پی ٹی آئی نے ہر حربہ استعمال کیا، افواج پاکستان اور اس کی قیادت کو بیرونی ایجنٹوں کے ذریعے بدنام کیا گیا، معاشرے میں انتشار اور تقسیم در تقسیم پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، اس سب کچھ کے باوجود اتحادی حکومت گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتی، پارلیمانی کمیٹی پارلیمان کے ذریعے گنجائش پیدا کر سکتی ہے، ایک دن الیکشن کی تاریخ پر سب کو اکٹھا کرنے کیلئے ہم نے اپنی آخری کوشش کر لی، پارلیمان جو فیصلے کرے گی ان کا احترام کریں گے، سپریم کورٹ کا کام پنچائیت یا ثالثی کرنا نہیں۔ وہ بدھ کو اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اجلاس میں شریک اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کو اجلاس میں خوش آمدید کہتے ہوئے گذشتہ عید کی مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک بار پھر اتحادی جماعتوں کے رہنما مشاورت کیلئے جمع ہوئے ہیں، ماضی قریب میں اتحادی رہنمائوں کی جو نشستیں ہوئیں ان میں ملک کو درپیش صورتحال، حالات اور چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں اقدامات کئے گئے، قومی اسمبلی اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھی ان چیلنجز پر بات چیت ہوئی اور عدالت عظمیٰ کے حوالہ سے معاملات پر آئینی و قانونی اقدامات اٹھائے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ صورتحال ابھی بھی بڑی چیلنجنگ ہے، کل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ، جس کو پارلیمان نے قبول نہیں کیا اور یہ ایک متفقہ رائے اور فیصلہ تھا کہ ہم چار تین کا فیصلہ مانتے ہیں، پانچ دو یا تین دو کا نہیں، اس پر پوری پختگی سے ہم نے اپنا مؤقف قائم کیا اور آج بھی ہم سب یہ سمجھتے اور مانتے ہیں کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مگر سپریم کورٹ اس حوالہ سے اپنے تین رکنی بنچ کے ساتھ معاملات کو آگے لے کر جانا چاہتی ہے تو اس بارے میں ہم آج پھر اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ اپنے پہلے فیصلے کا اعادہ کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کل اسی بنچ نے الیکشن کیلئے فنڈز کی فراہمی کے حوالہ سے جواب مانگا ہے، اس سے پہلے سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیئے تھے ان کو پارلیمان نے ڈیل کیا اور آج بھی میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمان نے جو فیصلے دیئے ہیں اور قراردادیں منظور کی ہیں یہ معاملہ بھی پارلیمان چاہے گی کہ اس کے سامنے لایا جائے اور وہ قوم کے سامنے اپنی رائے کو سامنے لائے، ہمارا یہ اخلاقی اور سیاسی فرض بنتا ہے کہ پارلیمان نے جو فیصلے دیئے ہیں ہم ان کا احترام کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو کہا اس سے ہٹ کر میں نہیں سمجھتا کہ مجھے یا آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم سپریم کورٹ کو ضامن بنائیں یا ثالثی کا حق دیں، یہ ان کا کام نہیں ہے، پنچائیت ان کا کام نہیں ہے، ان کا کام قانون اور آئین کے مطابق فیصلے دینا ہے لہٰذا اس بارے میں کہ ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں اور کب ہونے چاہئیں اس بارے میں اتحادی جماعتوں کے اندر مکمل ایکا اور اتفاق ہے کہ الیکشن نومبر میں، جو بھی اس کی تاریخ بنتی ہے، کو ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 13 اگست کو پارلیمان کی مدت ختم ہونی ہے، اس کے بعد اگر 90 دن شامل کئے جائیں تو اکتوبر، نومبر کی تاریخ بنتی ہے مگر قوم کو یہ باور کرانے کیلئے کہ ملک کے اندر اس وقت جو چیلنجز ہیں اور جس کو پی ٹی آئی کی قیادت نے، انتہائی افسوس کی بات ہے کہ حل کرنے کیلئے تجاویز دینے کی بجائے ایکسپلائیٹ کیا، انہوں نے اپنے صوبائی وزراء خزانہ کو کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے سے انکار کر دیں تاکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو سکے، پی ٹی آئی قیادت نے یہ کہہ کر پاکستان کے راستے میں مزید کانٹے بچھائے کہ امریکہ نے سازش کی تھی اور پھر انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے یوٹرن لیا اور ایک دن گویا ہوئے کہ یہ سازش امریکہ نے نہیں بلکہ اس سازش کے تانے بانے پاکستان کے اندر ہی بنے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جس بری طرح ہمارے خارجی تعلقات کو بے حد نقصان پہنچایا اس کی تفصیلات وہ یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ اور میرے سمیت اتحادی رہنمائوں نے معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے اپنی پوری کوششیں کیں جن کے نتیجہ میں کافی بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود معاملات کو تسلی بخش قرار دینا مشکل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے اندر انتشار پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، معاشرے میںتقسیم در تقسیم پیدا کی گئی اور معاشرے میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقات میں زہر گھولا گیا، استاد کو طالب علم سے، آجر کو اجیر سے، سیاستدان کو ورکر سے متنفر کیا گیا اور ملک میں انتشار پیدا کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے اور تمام مواقع استعمال کئے گئے حتیٰ کہ افواج پاکستان کو بھی نہیں بخشا گیا، ان کی قیادت کو پاکستان سے باہر چند ایجنٹس جو پی ٹی آئی کے ایجنٹس ہیں اور پاکستان کے دشمن ہیں انہوں نے وہ گھنائونا کردار ادا کیا کہ دشمن بھی شاید وہ کردار ادا نہ کر پاتا اور اس طرح کے ٹویٹس اور بیانات جاری کئے گئے اور سوشل میڈیا پر ایسی گرافک پریزنٹیشنز دی گئیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ ذاتی انا اور اقتدار کیلئے پاکستان کے ہر مقصد کو بری طرح قربان کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سامنے تین چار معاملات ایسے ہیں جن پر پارلیمان اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور اب دوبارہ چونکہ ہم بتایا گیا کہ کل آپ نے جواب دینا ہے تو پارلیمان نے ہی اب اس کا فیصلہ کرنا ہے، میں نے اور اتحادی رہنمائوں نے اس کا فیصلہ نہیں کرنا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو گفتگو کی بات ہے اس کے بارے میں سب کی ایک رائے ہے اور یہ غالب رائے ہے کہ ہمیں گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہئے لیکن اس کی کیا شکل ہو گی اس کا فیصلہ ہم مشاورت کے ساتھ کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہم سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے یہ بات ان تک پہنچائیں اور پارلیمانی کمیٹی اس معاملہ کو طے کر سکتی ہے اور پارلیمان میں پارلیمانی کمیٹی اس معاملہ میں گنجائش پیدا کر سکتی ہے تاکہ قوم یہ جان سکے کہ اتحادی حکومت کے زعماء نے ایک دن الیکشن کی تاریخ پر سب کو اکٹھا کرنے کیلئے اپنی آخری کوشش کر لی اور اس معاملہ کو ہم نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا جس طرح کہ ہمارے مخالفین نے میثاق معیشت، آئی ایم ایف، ہندوستان کی چیرہ دستیوں،کوویڈ اور دیگر قومی معاملات پر یہ مناسب نہیں سمجھا کہ قوم میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے وہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور انا کو ایک طرف رکھ دیں۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.