چیف جسٹس اور ججز پارلیمان کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کریں ، پرویز اشرف نے خط لکھ دیا
اسلام آباد : سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ارکان پارلیمان اورایوان کے جذبات اور خیالات سے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو آگاہ کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے ، بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر چیف جسٹس اور دیگرججز کو خط لکھنے کے معاملے پر ایوان میں اراکین سے رائے مانگی، اراکین نے ڈیسک بجا کر اس کی تائید کی، جس کے بعد راجہ پرویز اشرف نے چیف جسٹس پاکستان اور دیگر ججز کو خط لکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایوان کے جذبات اورخیالات سے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو خط کے ذریعے آگاہ کروں گا، کوشش کروں گا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججز کو آج ہی خط لکھ دیا جائے۔سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کریں۔ رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیر اعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کا عدم اعتماد نہیں ہے۔قومی اسمبلی کے مسترد کرنے کے باوجود انتظامیہ کو رقم جاری کرنے کا کہنا ٹرائی کاٹومی آف پاور کے اصولوں کے منافی ہے۔ آئین کی سربلندی، تحفظ، دفاع اور جمہوری اقدار کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ بدھ کو سپیکر کی جانب سے لکھے گئے خط میں سپیکر نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے کسٹوڈین کے طور پر اس خط کے ذریعے اپنی اور ان کے حالیہ فیصلوں اور بعض معزز جج صاحبان کے کومنٹس کے حوالے سے اپنی اورارکان کی گہری تشویش سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں جن کا علم ہمیں میڈیا رپورٹس کے ذریعے ہوا۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے یہ قومی اسمبلی کے اختیارات میں مداخلت ہے خط میں اسپیکر نے آئین کے آرٹیکل 73 کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس میں مالی بل کے حوالے سے خاص طور پر اختیار قومی اسمبلی کو دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 79 سے 85 تک فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈ سے اخراجات کی منظوری کا تمام تر اختیار قومی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ آئینی اختیارات کی تقسیم اور فنکشنز کے حوالے سے آئین کی یہ شقیں بڑی واضح اور غیر مبہم ہیں ۔رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیراعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کاعدم اعتماد نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ کے 14 اور 19 اپریل 2023 کے احکامات چار ججوں کی اکثریت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں دی گئی ۔
اختیارات کی تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں اس لئے یہ بات
مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر ادارہ دوسرے کے اختیارکا احترام یقینی بنائے ۔ سپیکر نے کہا کہ ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازعہ قومی مفاد کے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر اعلی عدلیہ نے غیرجمہوری مداخلت کی توثیق کی۔ پاکستان کے عوام نے خون اور قربانیاں دے کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور ہمیشہ فتح مند ہوئے۔ سپیکر نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے مگرافسوس ہے کہ زیادہ تر عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رُخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمان کی جدوجہد سے ہی آزادی حاصل ہوئی ہے ۔ قراداد مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے سپیکر نے خط میں کہا کہ آرٹیکل 2 اے کی رو سے قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے۔قراردادمقاصد بلاشک وشبہ پارلیمان کی بالادستی کا اعلان کرتی ہے اور یہ بابائے قوم قائداعظم کے وژن کا مظہر ہے۔
قرارداد مقاصد میں واضح ہے کہ آ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔عدلیہ اور انتظامیہ قومی اسمبلی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے مسترد کرنے کے باوجود انتظامیہ کو رقم جاری کرنے کا کہنا ٹرائی کاٹومی آف پاور کے اصول کے منافی ہے ۔
سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیاجائے۔چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طورپر پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کریں۔آئین کی سربلندی، تحفظ ،دفاع اور جمہوری اقدار کے لئے ہم سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ
دستوری تقسیم کے مطابق تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانا چاہیے۔
آئینی دائرے میں رہنے سے ہی ریاست کو اداروں کے درمیان تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔
سپیکر کے خط کی نقول اٹارنی جنرل پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔