صدر کی طرف سے واپس بھجوایا جانے والا سپریم کورٹ بل مشترکہ اجلاس میں منظور

0

اسلام آباد : پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر کی طرف سے واپس بھجوایا جانے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی بعض ترامیم کے ساتھ منظوری دیدی گئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آغاز پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آج آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغاز کیا گیا ہے جس پر تمام اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس دوران تحریک انصاف کے اراکین نے ایوان میں شور شرابا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ اور پھر متعلقہ قائمہ کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی منظوری دی جو صدر مملکت کو منظوری کیلئے بھجوایا گیا لیکن صدر مملکت نے یہ بل پارلیمان کو اپنے پیغام کے ساتھ واپس بھیجا ہے۔ انہوں نے ایوان میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوایا جانے والا پیغام پڑھ کر سنایا جس کے مطابق آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے، آرٹیکل 191 کے تحت آئین و قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے، آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا، اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملہ پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالہ سے قانون سازی کا اختیار ہے، بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، ان پہلوئوں پر مناسب غور کی ضرورت ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں معزز ایوانوں نے اس بل پر غور کیا جو لوگ یہاں سیڑھیوں پر بیٹھ کر نعرے لگا رہے ہیں اور اپنی کم علمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا، صدر مملکت کی جانب سے پارلیمان کے بارے میں مصنوعی اور ناکافی قانون سازی کا تاثر دیا گیا ہے جو نامناسب ہے، یہ پارلیمان کی خود مختار حیثیت اور قانون سازی کے اختیار پر منفی کمنٹ ہے، صدر مملکت کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے، ہم نے بارہا صدر مملکت کو اس ایوان کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کردار ادا کریں نہ کہ ایک سیاسی جماعت کے ورکر کے طور پر۔ وزیر قانون نے کہا کہ یہ بات ہمارے لئے تکلیف دہ ہے کہ صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تعصب کی عینک پہن لیتے ہیں اور آئین و قانون کی پاسداری کی بجائے اپنی جماعت کی حمایت شروع کر دیتے ہیں، صدر مملکت نے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے رولز بننے کا کہا کہ ان کی موجودگی میں کسی قانون سازی کی گنجائش نہیں، اس آرٹیکل کی زبان بہت سادہ ہے جس میں دستور اور قانون سے آغاز ہو رہا ہے جو پارلیمنٹ کو اختیار دیتا ہے، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے آرٹیکل 55 کے حوالہ سے بھی صدر مملکت نے پھر وہی تعصب کی عینک پہنی، کاش وہ یہ عینک اتار کر اس آرٹیکل کو اس کی روح کے مطابق پڑھ لیتے، جہاں تک حدود کے تعین کا تعلق ہے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے لیکن ہم نے تو اس کے دائرہ کار میں اضافہ کیا ہے اور شفافیت لائے ہیں، ملک بھر کی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی طویل عرصہ سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ 1980ء کے آمرانہ دور کے رولز جن میں آمرانہ جھلک نظر آتی ہے جہاں طاقت کا سارا اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا جبکہ آئین پاکستان کہتا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور دیگر ججز پر مشتمل ہو گی جس کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت کیا جائے گا، اگر یہ تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت ہوتا ہے تو کیا رولز آف پروسیجر 191 کے تابع وہ نہیں چھیڑے جا سکتے، اس حوالہ سے سپریم کورٹ نے امان اﷲ خان کیس میں اپنا فیصلہ دیا ہے جس میں یہ کہا ہے کہ سپریم کورٹ اعلیٰ ترین عدالت ہے اس میں شفافیت ہونی چاہئے اور معاملات اس طرح سے ہوں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے، ان جائز مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے اور ماضی قریب کے سپریم کورٹ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں جو کہ فیصلوں کے ذریعے ہم تک پہنچیں، پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا نمائندہ ہونے کے ناطے اور آئین کے تحت یہ قانون سازی کی تاکہ پروسیجر اور رولز میں شفافیت لائی جا سکے اور امپیریل کورٹ کا جو تاثر ابھرا ہے اور ون مین شو کے حوالہ سے جو باتیں آئی ہیں ان کا اثر زائل اور شفاف طریقہ کار کیلئے سوچ و بچار کے بعد یہ قانون بنایا گیا ہے، صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کرتا ہے، یہ تمام اختیارات سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو ہی دیئے گئے ہیں جو کام پہلے اکیلے چیف جسٹس کرتے تھے اب وہ کام دو سینئر ترین ججوں کی مشاورت سے کریں گے، اس سے ادارہ میں یگانگت اور اجتماعی سوچ پروان چڑھے گی اور اس کے کام میں شفافیت آئے گی اور ادارہ تنقید سے محفوظ ہو سکے گا، دونوں ایوانوں نے غور کے بعد یہ بل منظور کیا ہے جس کو ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں نے قراردادوں کے ذریعے سراہا ہے اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ انہوں نے بل کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کردہ اور صدر مملکت کی جانب سے واپس بھجوانے کے ساتھ زیر غور لانے کی تجویز دی۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی عدم استحکام بھی سامنے آیا، ان دونوں وجوہات سے ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا ہوئی، قانون کے مطابق یہ پارلیمان اس حوالہ سے قانون سازی کر سکتا ہے، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں موجود سبجیکٹس کے حوالہ سے قانون سازی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کی سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس سے قبل دو رکنی ججوں کے بنچ کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل کا حق نہیں تھا، اس قانون کے تحت تین رکنی کمیٹی کیس سننے یا نہ سننے کا فیصلہ کرے گی، اس بل میں وکلاء اور بار کونسلز کے دیرینہ مطالبہ کو مدنظر رکھا گیا ہے، اس سے قبل ازخود نوٹس میں جو وکیل پیش ہو گا وہی نظرثانی میں پیش ہو سکے گا جو بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اب نئے قانون کے تحت اس میں تبدیلی بھی کی جا سکے گی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو ممبران نعرے بازی کر رہے ہیں پورا یقین ہے کہ انہوں نے یہ قانون نہیں پڑھا، ہمارا 30 سال سے یہ ترامیم لانے کا مطالبہ تھا، یہ جو لوگ عدلیہ بچائو کے نعرے لگا رہے ہیں اگر ایک بار بل پڑھ لیتے تو یہ مطالبہ نہ کرتے، اس بل سے عدلیہ بچ رہی ہے، دستور میں انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے ایک طریقہ کار دیا گیا ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ دو صوبوں میں ایک وقت اور باقیوں میں دوسرے وقت میں ہوں۔ سپیکر نے تحریک ایوان میں منظوری کیلئے پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی جس کے بعد سپیکر نے بل کی شق وار منظور لی۔ کلاز ٹو میں شزہ فاطمہ خواجہ نے ترمیم پیش کی جس کی وزیر قانون نے مخالفت نہیں کی۔ ایوان نے یہ ترمیم منظور کر لی۔ کلاز فائیو پر شزہ فاطمہ خواجہ اور سینیٹر مشتاق احمد نے ترامیم پیش کیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ امپیریل سپریم کورٹ کے حوالہ سے آوازیں اٹھ رہی تھیں اس لئے یہ قانون ضروری تھا، کسی فرد کے مفاد میں قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔ اعظم تارڑ نے کہا کہ جس طرح ٹوئن ٹاور کو جرمانہ لگا کر ریگولیٹ کر دیا گیا لیکن کراچی میں سفید پوشوں کا ٹاور گرانے کا حکم دیا، اپیل کے حق کے حوالہ سے مطالبات سامنے آئے یہ سب کے مفاد میں ہے اور 30 دن کے اندر متاثرہ شخص ایسے کسی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے، اس پر فیصلہ پھر سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے کہ جنہوں نے یہ فیصلے کئے ہیں ان کے ذریعے ہی اس پر درستگی ہو۔ انہوں نے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم سے اختلاف کیا، ایوان نے شزہ فاطمہ خواجہ کی ترمیم منظور جبکہ سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم مسترد کر دی۔ وزیر قانون و انصاف نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.