سیاسی جماعتیں فلسطینیوں کیساتھ،پی ٹی آئی کا بائیکاٹ

0

اسلام آباد : فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ایوان صدر میں بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں کے قائدین نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کونسل کشی پر مبنی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل خطے میں امن اور سکیورٹی کو تباہ اور اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے،مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل اور غزہ کے محاصرہ کو ختم کیا جائے ۔
مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف ، چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمن، حافظ نعیم الرحمن، مولانا فضل الرحمن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی ودیگر شریک ہوئے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے اے پی سی کا بائیکاٹ کیا گیا اور اس کا کوئی رہنما شریک نہیں ہوا ۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرزرداری نے اسرائیل سے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کیاجبکہ وزیر اعظم شہبازشریف کا کہناتھاکہ اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے کیلئےماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپ کو دنیاکے اہم ممالک میں بھیجاجائےگا‘امیر جے یوآئی مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل کسی صورت قبول نہیں‘مسلم لیگ (ن)کے صدر نوازشریف نے کہاکہ اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے اور وہ اس کا استعمال اگر آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کاکہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سیاسی اور سفارتی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں‘امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے مطابق اگر حماس لڑ رہی ہے تو جنیوا کنونشن کے تحت لڑ رہی ہے‘ پاکستان میں حماس کا دفتر ہونا چاہیےجبکہ اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان نے رائے دی کہ جولوگ 50سال سے پاکستان اور افغانستان میں مسلمانوں سے جہاد کر رہے ہیں انہیں اسرائیل بھجوائیں کہ وہاں جا کر جہاد کریں۔ اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ امن کی بحالی اور تنازعات کو پھیلنے سے روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے، اسرائیل نے لبنان، شام اور یمن کو نشانہ بنانے کے لئے اپنے حملوں کو بڑھانے کے ساتھ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی زور دیا کہ وہ فلسطین اور لبنان میں امن و سلامتی کے قیام کی اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب میں کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہوا ظلم قیامت تک بھلایا نہیں جاسکے گا،نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت پر عالمی ضمیر جاگنا چاہئے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے بہت اچھے انداز میں بات کی ، سب سے پہلے ہمیں خونریزی کو بند کروانا ہوگا، یہی ہماری اولین ذمہ داری ہے، فلسطینی طلباء کو پاکستانی یونیورسٹیز میں داخلے دینے کی تجویز پر عمل کریں گے۔ بطور وزیراعظم اور پاکستانی آئی ایم ایف پروگرام کی فکر ہونی چاہیے،کانفرنس میں شرکت پر تمام رہنماؤں کا مشکور ہوں، جب بھی پاکستان کو کسی چیلنج کا سامنا ہوا توپوری سیاسی قیادت متحد ہوگئی، قائدین کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو غور سے سنا، اجتماعی سوچ اور فکر ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے،ہم سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، وقت آگیا ہے کہ خونریزی کو بند کرانے کے لیے اپنی تمام کاوشیں بروئے کار لائی جائیں، فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور القدس شریف اس کادارالحکومت ہونا چاہیے، ہم ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے، ورکنگ گروپ کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں گے، ماہرین کو شامل کریں گے اور ورکنگ گروپ صرف سیرسپاٹے کے لیے نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین میں امدادی سامان پہنچانے میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، مزید امدادی سامان بھی غزہ کے مظلوم عوام کے لیے بھجوایاجائے گا۔ انہوں نے کہا بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں، وادی کشمیر میں معصوم کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے، سوڈان کی تقسیم، مشرقی تیمور کے معاملات طے کرنے کیلئے عالمی طاقتوں نے تمام حربے استعمال کئے، کیا مسلمانوں کا خون ان کے خون سے سستا ہے، ہمیں مسلمانوں اور مظلوم قوموں کا موقف پوری یکسوئی، قوت، اتحاد و اتفاق کے ساتھ بیان کرنا ہے، ہمیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے، ہماری آواز دنیا میں اس وقت سنی جائے گی جب ہم خود کو مل کر قوم بنائینگے۔مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہا کہ فلسطین کے نہتے شہریوں پر جس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے، اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی ناکامی ہے، بڑی بڑی عالمی قوتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں،عالم اسلام کو مل بیٹھ کر غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔ فلسطینیوں کے پاس کوئی فوجی طاقت نہیں، ان کے پورے کے پورے شہر اور علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہیں، معصوم بچوں کو ان کے والدین کے سامنے شہید کیا جا رہا ہے،ایسے واقعات دیکھے ہی نہیں جاتے، دنیا نے اس صورتحال سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ اس کو انسانی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔صدر مملکت کے خیالات سے پوری طرح متفق ہوں، ہمیں اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے، پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور انشاء اللہ کھڑا رہے گا۔سربراہ جمیعت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے، 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا، ہمیں اس کانفرنس سے ایک فلسطین کی آزاد ریاست کا واضح پیغام دینا چاہیے، دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں پاکستان کا ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے، اسرائیل کی بنیاد دہشتگردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے، ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا آفس قائم ہونا چاہیے۔چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشتگردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ، یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کےساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لیےتیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دینگے۔مسلم لیگ (ق) کے رہنما و وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا، ہمیں مسئلہ فلسطین کے حل پر توجہ دینا ہو گی، ہمیں قابل عمل اقدامات کے ذریعے معصوم فلسطینیوں کی جانوں کو بچانا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ و وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کی مدد کیلئے سفارتکاری کو فعال کرنا چاہئے اور امت مسلمہ کو متحد کیا جائے، مغرب سمیت اقوام عالم کو اس معاملہ پر اپنی بے حسی ختم کرنی چاہئے اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کوششوں کو تیز کرنا چاہئے۔ایم کیو ایم کے رہنما و وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر فلسطین پر اپنا موقف پیش کرنے کیلئے وفود اسلامی ممالک کے ساتھ روس اور چین میں بھی بھیجنے چاہئیں،ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کے دروازے فلسطینی طلباء کیلئے کھول دینے چاہئیں۔ اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے کہا کہ فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں، اسرائیل اتنے مظالم کے باوجود ابھی تک مظلوم فلسطینیوں کی حوصلے پست نہیں کر سکا۔اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان نے کہا کہ فلسطینیوں پر مظالم بند ہونے چاہیئں، ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، فلسطینی اور کشمیری دونوں مظلوم ہیں۔ فلسطین کے ساتھ ہم کشمیر کی آزادی کی بات بھی کریں گے، احتساب ہمیشہ خود سے شروع ہوتا ہے، اپنے ملک پر بھی ہم کو نظر ڈالنی چاہیے، افغانستان بھی مظلوم ملک ہے، نظریاتی طور پر آرمڈ ملیشیا ایک ہی بات کر رہے ہیں، جو رونا ہم فلسطین کیلئے رو رہے ہیں ایسا نہ ہو اگلے 50سال میں بلوچستان اور کے پی کیلئے رو رہے ہوں۔نیشنل پارٹی کے رہنما جان محمد بلیدی نے کہا کہ اسرائیل اخلاقی، سیاسی اور انسانی اقدار سے تجاوز کر چکا ، مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے، اقوام متحدہ دنیا میں امن و انصاف کے قیام میں ناکام ہو گیا ۔ سربراہ ایم ڈبلیو ایم علامہ ناصر عباس نے کہا کہ اسرائیل غیرقانونی ریاست ہے، اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، فلسطینی حق پر ہیں، پاکستان اوآئی سی ہنگامی سربراہی کانفرنس طلب کر کے صیہونی بربریت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرے، انتالیس ملکی فوجی اتحاد کو عالم اسلام کی متحدہ فوج قرار دے کر اسرائیل کو وہی جواب دے جو اس نے غزہ ولبنان کے بچوں کو دیا ،عالم اسلام پاکستان کی قیادت میں صیہونی ریاست کو ویساہی جواب دے جیسا 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں دیا تھا۔ نیز اکتوبر 1973 کی طرح مسلم ممالک کی جانب سے نہ صرف اسرائیل کے طرفدار ممالک کو تیل کی سپلائی بند کی جائے بلکہ ہر قسم کے تجارتی تعلقات بھی منقطع کردیئے جائیں،کشمیر کے مسئلے کو بھی عالم اسلام کا مسئلہ سمجھا جائے اور عالم اسلام بھارتی جارحیت کیخلاف بھی مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔ ایوان صدر میں منعقد کی گئی اے پی سی میں پی ٹی آئی نے شرکت نہیں کی حکومت نے تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو شرکت کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی اور کہا کہ ماحول مناسب نہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.