سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ، فیصلہ محفوظ
اسلام آباد:الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے 26 فروری کو لکھا گیا خط کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے حوالے کردیا جس میں سنی اتحاد کونسل نے موقف اپنایا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا لہٰذا انہیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں۔
بدھ کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی ۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز اور جمعیت علمائے اسلام ( پاکستان) کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں اپنے پارٹی کے انتخابی نشان پر کوئی نشست حاصل نہیں کی اور نہ ہی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کوئی ترجیحی فہرستیں جمع کرائیں۔
انتخابی قانون 2017 کی شق 104 کے تحت کاغذات نامزدگی کی تاریخ گزر جانے کے بعد نئی فہرست جمع نہیں کرائی جا سکتی اور نہ ہی پہلے سے دی گئی فہرست میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر نے بیرسٹر علی ظفر کو بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ محمد حامد رضا کے دستخطوں سے 26 فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی قانون 2017 کی شق 206 کے تحت خواتین امیدواروں کی فہرست جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا،سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں تو انہیں کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے انتخابی ضابطے پر عمل درآمد بارے خطوط لکھے ، سنی اتحاد کونسل نے اس کے جواب میں موقف اختیار کیا کہ ان کی جماعت نے کوئی امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 104 کے تحت مخصوص نشستوں کے لئے ترجیحی فہرست کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کی کوئی نشستیں نہیں ہے تو آزاد امیدوار جا کر کیسے مخصوص نشستیں مانگ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی رکن جنرل نشستوں پر کامیاب نہیں ہوا نہ مخصوص نشستوں پر ترجیح فہرست دی۔
جمعیت علمائے اسلام(پاکستان) کے وکیل کامران مرتضیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کمیشن نے انتخابی قانون کی شق 104 اور رولز 92 کو دیکھنا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی ، اب یہ نشستیں ان جماعتوں کو الاٹ ہو سکتی ہیں جنہوں نے ترجیح فہرستیں جمع کرائی ہیں۔ کمیشن نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔