بائپر جوائے کل کیٹی بندر سے ٹکرائے گا

0

کراچی۔ سمندری طوفان بائپر جوائے مسلسل آگے بڑھتے کل سندھ کے جنوب مشرقی ساحلی علاقہ کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔

کراچی کو طوفان سے براہ راست خطرہ نہیں تاہم تیز ہواؤں اور بارشوں کی صورت میں اس کے اثرات شہر پر رونما ہوں گے، طوفان کے خطرے سے دوچار علاقوں سے لوگوں کا انخلاء کر لیا گیا ہے جنہیں محفوظ مقامات پر اسکولوں اور پختہ عمارتوں میں منتقل کیا گیا ہے، تمام متعلقہ ادارے الرٹ اور صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، عوام کو کسی بھی قسم کی افراتفری سے اجتناب برتتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ سینیٹر شیری رحمان اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے بدھ کو سمندری طوفان بائپر جوائے کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں جائزہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندری طوفان بائپر جوائے کی شدت کم ہوئی ہے تاہم اس سے منسلک خطرات بدستور برقرار ہیں اور اس کے مطابق تمام اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بائپر جوائے کی نوعیت انتہائی شدید طوفان کی ہے جس کی سطح پر ہوائوں کی رفتار 140 سے 150 کلومیٹر ہےکہ اس کے مرکز میں 170 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

ان کا کہنا  تھا کہ سمندری طوفان کے جس راستے کی پیشگوئی کی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کل جمعرات کو کیٹی بندر کے ساحلی علاقے سے ٹکرائے گا، کراچی کو براہِ راست طوفان سے خطرہ نہیں ہے لیکن اس کے اثرات شہر پر رونما ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان کی وجہ سے ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھرپارکر، کراچی، میرپور خاص، عمرکوٹ، حیدرآباد، اورماڑہ، ٹنڈو الہٰ یار خان اور ٹنڈو محمد خان کے علاقے متاثر ہوں گے جہاں تیز اور تند ہوائوں کے ساتھ شدید بارش کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ طوفان کی صورتحال کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے، اس سلسلہ میں این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان باقاعدگی کے ساتھ رابطہ اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں صورتحال پر غور کیا جا رہا ہے۔ طوفان کے اثرات کی زد میں آنے والے علاقوں میں کمزور انفراسٹرکچر، بل بورڈز، کچی چھتوں اور سولر پینلز کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.