سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا، چیف جسٹس
اسلام آباد:چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا ، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14مئی کے فیصلے کو لیکر نہیں بیٹھی رہے گی
جمعہ کوچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کی ،اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے بھی اپنا جواب جمع کرادیا ہے ۔ سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے ۔ چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور چیئرمین سینیٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے ، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے پانچ ادوار ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سے تحریک انصاف کو آگاہ کیا جبکہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات سے متعلق بھی بتایا گیا ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے اگست میں قومی اسمبلی کی تحلیل پر رضا مندی ظاہر کی ہے ، مذاکرات کے لئے مزید وقت درکار ہے ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کے جواب میں آئی ایم ایف معاہدہ پر زور دیا گیا ہے ، عدالت میں آئینی مسئلہ پر غور کیا جارہاہے ، سیاسی مسائل پر نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی معاملات عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے ؟ ۔ فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ بجٹ کے لئے آئی ایم ایف سے قرض ملنا ضروری ہے ، اگر اسمبلیاں موجود نہ ہوں تو بجٹ منظور نہیں ہو سکے گا ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں اگر نہ توڑی گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا۔ انہوں نے کہاکہ بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہاہے ۔ اسمبلیوں کی تحلیل سے عدالت پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ افہام و تفہیم سے معاملات طے ہو جائیں تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی ۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ اسمبلی توڑنے پر بھی بجٹ کے لئے آئین چار ماہ کا وقت دیتا ہے ۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ اخبارات میں پڑھا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے یا رد کیا ہے ؟۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہاکہ آئین میں انتخابات کے لئے 90دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 90دن میں انتخابات کے انعقاد پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ رات دونوں فریقین کا موقف ٹی وی پر سنا ، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14مئی کے فیصلے کو لیکر نہیں بیٹھی رہے گی ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لئے آئین استعمال کر سکتے ہیں ، عدالت اپنا فرض ادا کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ غصہ میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ کرتے ہی نہیں ۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور عدالت کے باہر کس لیول کی گفتگو کی جاتی ہے ۔ عدالت اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا موازنہ کر کے دیکھیں لیں ۔فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ عدالت کو 90دن میں انتخابات کے انعقاد کے معاملہ کا دوبارہ جائزہ لینا ہو گا ۔ انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ منتخب حکومتوں کی موجودگی میں کوئی بھی الیکشنز کو قبول نہیں کرے گا ۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 23فروری کو یہ معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں اور یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے ۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ہمیں عدالت نے سنا ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جب سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے سنجیدگی سے کیس کو چلایا ہی نہیں آپ چار ۔ تین کی بحث میں لگے رہے ، جسٹس اطہر من اللہ نے دونوں صوبائی اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا لیکن حکومت نے دلچسپی ہی نہیں لی۔ انہو ں نے کہاکہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہاکہ 6فوجی جوان گزشتہ روز ہم نے کھو دیئے یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے ۔ انہوں نے کہاکہ معاشی حالات کے علاوہ آج ہمیں سیکورٹی کا اہم مسئلہ بھی درپیش ہے ، اگر سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا ؟ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہاکہ تحریک انصاف نے مذاکرات میں سنجیدگی سے حصہ لیا ، ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد پر فریقین نے رضا مندی ظاہر کی ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کو معاملہ کو طول دینے کے لئے استعمال نہ کرے ، سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سب کو عمل کرنا ہو گا ۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ جو حکم دے گی ہم تسلیم کریں گے
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ہم اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مذاکرات میں حکومت نے لچک دکھائی ،مگر دوسرے فریق نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ انہوں نے کہاکہ آئین 90روز میں انتخابات کا کہتا ہے مگر صاف شفاف انتخابات کا بھی کہتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پہلے انتخابات سے بہت سے مسائل جنم لیں گے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ انتخابات کے معاملہ پر ہی ہم پہلے آدھا ملک گنوا چکے ہیں ، ایک صوبے میں انتخابات کا انعقاد نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1988کے سیلاب اور بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے موقع پر انتخابات ملتوی ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ایک ہی دن الیکشن کرانے کے لئے تیار ہے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ اگر کچھ وقت مزید مل جائے تو ان شاء اللہ ضرور حل نکل آئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ مدت سے زیادہ ہم ایک دن بھی اسمبلی نہیں چلائیں گے ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو جوباتیں بتائی جارہی ہیں وہ لکھ کر دی جاسکتی تھیں ۔ انہوں نے کہاکہ ملک و قوم کی خاطر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق نے عدالت میں موقف اپنایا کہ تین نکات پر اتفاق ہو چکا ہے چوتھے نکتے پر بھی اتفاق ہو جائے گا ، مذاکرات میں موجودہ وقفہ کوئی بڑا وقفہ نہیں ہے ۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ کوئی حکم یا ہدایت نہ دے
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہمارا کسی قسم کی ہدایت کا کوئی ارادہ نہیں ،ہم آپ لوگوں کو سننے کا اختیار تو رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ہدایت دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کر دیا جائے ، مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملہ کو دیکھیں گے
درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست آچکی ہے ، حکومت کو بھی نظر ثانی دائر کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم محمد شہبازشریف اور عمران خان کو ویڈیو لنک پر لیا جائے ، ان کو سننے کے بعد حل نکل آئے گا ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ ان کے نمائندے یہاں موجود ہیں ہم صرف کالے کوٹ والوں کو سننا پسند کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا الیکشن کمیشن نظر ثانی درخواست کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور پی ٹی آئی قیادت کو ویڈیو لنک پر لینے کی استدعا مسترد کر دی
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ہمیں مالی مشکلات کا علم ہے ، پاکستان اس وقت سیاسی بحران کا سامنا کر رہاہے ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف مذاکرات چاہتی ہے کہ نہیں ؟۔ شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف مذاکرات سے پیچھے ہٹ چکی ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے اور 14مئی کے فیصلہ کو بعد میں سن لیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کیس کو اس پر نمٹا دیا جائے کہ فریقین ایک تاریخ پر ہی الیکشن کرانے پر متفق ہیں ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ کو سیاسی عمل پر چھوڑا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ نقطہ تحریری طور پر دیا جاسکتاتھا کہ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور اس کے انتخابات سے چھوٹے صوبے متاثر ہوں گے ۔ انہوں نے کہاکہ عدالت مناسب حکم جاری کرے گی ۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی ۔