سپریم کورٹ،ججز خط، سماعت 29اپریل تک ملتوی

0

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں عدالتی امور میں مداخلت کے حوالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ
عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرینس ہے، عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، آئین نے ہائی کورٹ کو توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار دیا ہے، جس عدالت کی توہین ہو رہی ہو، کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے، چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر ممکنہ فل کورٹ کی تشکیل کا عندیہ بھی دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان
پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے بدھ کو یہاں ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس اپنے پہلے سوموٹو نوٹس کیس کی سماعت کی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ایڈووکیٹ حامد خان سے سوال کیا کہ اگر آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں۔ حامد خان نے عداکت کو آگاہ کیا کہ ہم نے لاہور ہائی کورٹ بار کی طرف سے کل ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ زمانے چلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی۔ اب تین رکنی کمیٹی کیسز کا فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہئے اور نہ ہی عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں۔ کیا یہ پریشر کے لیے ہے؟۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔ ایک نئی چیز شروع ہو گئی ہے۔ وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو وکیل از خود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اسے وکالت چھوڑ دینی چاہئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت کو روسٹرم پر بلا لیا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خط موصول ہونے کے بعد کے اقدامات کی تفصیل عدالت میں پڑھ کر سنائیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دنیا بھر پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن ہمیں خود پر پہلے انگلی اٹھانی چاہئے۔ پہلے اپنی اصلاح کرو اور پھر دوسرے کو کچھ کہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ہوتا تھا کہ چیمبر میں آ گئے تو کیس لگ گیا۔ کھڑے ہو گئے تو کیس لگ گیا لیکن اب ہم سیدھا چلیں گے اور عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرنس ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی۔ اس وقت سارے وکیل کہاں تھے؟۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن بتا رہا ہوں۔ اگر عدلیہ پر حملہ ہو گا تو میرے سارے ساتھی میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا پس منظر بتایا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم عدلیہ کے کام میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں۔ ایگزیکٹیو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی اور نہ ہی چیمبر میں میٹنگ کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی ہے۔ اس میں اور قانون میں فرق واضح ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس میں کہا کہ کمیشن ہم نے ایسے نام تجویز کئے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جا سکیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کسی مہذب معاشرہ میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اپنی باڈیز کو لکھ سکتے تھے۔ تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں وہ تو جواب نہیں دیں گے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا اگر ایسے ذاتی حملے ہوں اور ایسا ماحول بنایا دیا جائے تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا؟۔ سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں۔ مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے۔ انیوں نے سوال کیا کہ کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے؟۔ آئین کو پڑھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے، وزیر اعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں۔ جب سے چیف جسٹس بنا ہوں یہی کہتا ہوں کہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ہمارے پاس کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون انکوائری کمیشن میں حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ آج بھی حکومت کی پوزیشن وہی ہے۔ سپریم کورٹ کو ہر تعاون و معاونت فراہم کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک طرف عدلیہ کی آزادی ہے اور دوسری جانب ایگزیکٹیو کی ساکھ خطرے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو۔ عدلیہ کی آزادی ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے۔ حکومت عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کرے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کے ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام ہے اور اس کے دیگر ممبرز بھی ہیں۔ ہم ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس خط کے کئی پہلو ہیں۔ خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے اور اس کا اختیار واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مشہور زمانہ کیس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تھا۔ جس پر سپریم کورٹ نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو یقین ہونا چاہئے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر کوئی شکایت ہو تو وہ ججز کے گلے پڑ جائے۔ جو لوگ چلے گئے ان پر انگلی نہیں اٹھا رہا صرف بات کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو چیزیں ہیں۔ انکوائری اور حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ تحقیقات وہ کرے جو معاملےہکی نزاکت کو سمجھتے ہوں۔ اب معامہے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لئے نہ سپریم کورٹ کی اجازت چاہئے اور نہ ہی جوڈیشل کونسل کی۔ توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار آئین پاکستان نے دیا ہے۔ جس جج سے متعلق معاملہ ہو وہ خود توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے۔ دوسری عدالت کسی عدالت کی توہین عدالت کے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔ اگر سول جج کی توہین ہو رہی ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے اور اگر ہائی کورٹ کے جج کی توہین ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بے عزتی کریں۔ معاشرے میں بہت گند آ گیا ہے۔ غلط کام کریں گے تو آپ کو پکڑیں گے۔ یہ نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپنا کام کرے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خط کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز مجھ سے ملے۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے مجھے یا سردار طارق کو اس میٹنگ میں نہیں بلایا اور نہ ہی مجھ سے اس وقت یا بعد میں کوئی مشاورت کی گئی۔ ہائی کورٹ کے ججز مجھ سے ملنے آئے لیکن میرے پاس اختیار نہیں تھا کہ میں کچھ کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میں چیف جسٹس بنا ہوں کوئی نہیں کہہ سکتا میرے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا وکیل میرے پاس کیوں آ رہے ہیں؟۔ اپنے متعلقہ فورم پر جائیں۔ 300 وکلاء کا بغیر دستخط والا خط چلایا گیا۔ اس طرح تو کسی کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارہ کے جواب کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے رسپانس نہیں دیا جا سکتا۔ خط ملنے کے بعد فوری طور پر وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ فل کورٹ کے دو اجلاس ہوئے۔ عدالت میں ہم وزیر اعظم کو نہیں بلا سکتے کیونکہ ان کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر ہم نوٹس دیں گے تو سیکرٹری آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو بلا کر ملاقات کی اور واضح پیغام دیا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھا لیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف پارلیمان ہے۔ دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت ہے۔ ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں، غلط کام کریں گے تو ہم فوراً پکڑیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو اپنا احتساب کر کے دکھا رہے ہیں۔ جس جج سے زیادتی ہوئی ہم نے اسے درست کرنے کی کوشش کی اور سابقہ کیسز میں جو غلطیاں ہوئیں ہم نے انہیں بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے ججز کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگر کسی جج پر کوئی چیز ثابت نہیں ہے تو میں اسے قابل احترام مانتا ہوں۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپا کر اس اہم معاملہ سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سول جج پر دباؤ آئے تو اسے کیسے محفوظ کرنا ہو گا یہ سنجیدہ معاملہ ہمیں حل کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا اور یہ ریفرنس سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کرائی گئی تھی۔ کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی؟۔ کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا؟ پوچھیں اس وقت کے وزیر اعظم سے کہ وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر ہائی کورٹ کے پاس اپنی پاور ہے وہ استعمال کریں۔ ہم ہائی کورٹس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت کہا کہ آج ہم 7 جج اس لئے بیٹھے ہیں کیونکہ اس وقت صرف سات ججز ہی اسلام آباد میں دستیاب تھے دیگر جج اسلام آباد میں نہیں تھے اس لئے فل کورٹ نہیں بیٹھا۔ انیوں نے کہا کہ کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں۔ ہو سکتا ہے آئندہ فل کورٹ بیٹھے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہم کب تک ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ یہ ملک آپ کا بھی ہے اور میرا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آگے بہتری کی طرف چلتے ہیں۔ ل آئین کا آرٹیکل 203 بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آئین میں کسی عدالت کو دوسری پر برتری نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 6 ججز کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہائی کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ کیوں استعمال نہیں کر رہے؟۔ ہم مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت 29 اپریل 2024ء تک کیلئے ملتوی کر دی اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ کے حوالہ سے ججز کا شیڈول دیکھ کر طے کریں گے

Leave A Reply

Your email address will not be published.