افسران کو کس نے ڈرایا کہ اجلاس میں ہی نہیں آئے” ،چئرمین پی اے سی کا سوال

0
  1.  ‎اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق معاملے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے آج کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز سمیت سرکاری افسران کی غیر حاضری پر چیئرمین پی اے سی نورعالم نے تشویش کا اظہار کیا ، کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ، اجلاس میں تمام متعلقہ افسران کو طلب کیا گیا تھا کمیٹی کے ارکان نے متعلقہ افسران کی غیر حاضری پر پر ناراضگی کا اظہار کیا،چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ”کیا کسی نے انہیں ڈرایا ہے جو اجلاس میں نہیں آئےپبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس سے غیرحاضر رہنے والے سرکاری افسران کو ایک موقع دے رہا ہوں  اگر وہ آئندہ اجلاس میں شریک نہ ہوئے تو ان کےوارنٹ جاری کروں گا
    پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس  پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا ، چیئرمین نے کہا کہ ہم نے آئین اور قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے ہم یہاں کسی شخصیت یا پارٹی کے لئے نہیں بیٹھے ۔ قومی اسمبلی کی طرف سے 4 مئی 2023 کو قاعدہ 199 کے تحت جسٹس مظاہر علی نقوی کے اثاثوں اور ان کے ذرائع آمدن کے حوالے سے چھان بین کا معاملہ پی اے سی کو بھجوایا گیا ۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے پی اے سی کے استفسار پر بتایا کہ  ایف بی آر کے پاس سب کے انکم۔ٹیکس اور اثاثوں کے گوشوارے موجود ہیں ۔ برجیس طاہر نے کہا کہ یہ کیس آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے اس لئے اسٹیٹ بنک اور ایف آئی اے سے مدد لی جائے ۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ یہ انتہائی اہم اور نازک معاملہ ہے ہم یہاں ائین اور قانون کے تحت بیٹھے ہیں  ہمارا کسی سے ذاتی عناد نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے انصاف دینا ہے ان کے نام کی بازگشت قومی اسمبلی کے ذریعہ پورے ملک میں سنی گئی ۔ اخلاقی تقاضے کے تحت جن کا ذکر ہو رہا ہے انہیں اس منصب سے الگ ہو جانا چاہیئے ۔ نور عالم خان نے آئین میں درج حلف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے سب سے پہلے پاکستان ہے ہمارا اور کوئی مقصد نہیں ہے ۔ سنیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہمیں کمیٹی کا مینڈیٹ بھی مد نظر رکھنا چاہیئے ۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کی کوئی ہمارا کندھا تو استعمال نہیں کر رہا ۔ ہمیں درجہ حرارت کم سے کم رکھنا چاہیئے ۔ نور عالم نے کہا کہ میں کسی لیڈر کے گھر سے کھانا نہیں کھاتا ۔ قاعدہ 201 کے تحت پی اے سی کو چھان بین کا اختیار حاصل ہے۔ سیکرٹری قانون نے کہا کہ ججوں کے گوشواروں کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہوتا ۔ پی اے سی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے اثاثوں کی تفصیلات پی اے سی کو بھجوائی جائے ۔ سیکرٹری ہائوسنگ نے بتایا کہ سی ڈی اے نے زمین کی قیمت مقرر کر رکھی ہے جس کے تحت زمین کی اصل ویلیو کا تعین کیا جاتا ہے ۔ نورعالم خان نے کہا کہ آج کے اجلاس میں جو جو سرکاری حکام شریک نہیں ہوئے ہمیں انہیں بلانا آتا ہے۔
    شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ہمارا دائرہ اختیار واضح ہے ہمیں یہ ذمہ داری پارلیمنٹ نے دی ہے ۔ سید حسین طارق نے کہا کہ جس کو ہمارے دائرہ اختیار کے حوالے اے شک وشبہ ہے تو وزارت قانون و انصاف سے رائے لی جا سکتی ہے ۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ملک کے ریونیو کا نقصان کرنے پر پی اے سی ایکشن لے سکتی ہے ۔ پی اے سی کے بیشتر ارکان نے کہا کہ پی اے سی اس ضمن میں فیصلہ کرے ہم اب چیئرمین کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ نور عالم خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا ادارہ ہے ۔ ہم اپنی قومی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں ۔ جو افسران آج اجلاس میں نہیں آئے اگر آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری اور اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا سب کی قانونی ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی قانونی سقم ہے تو قانون بنانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے آڈیٹر جنرل سے کہا کہ پلاٹوں کی کیٹیگریز کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے ۔ ایف بی آر ،وزارت ہائوسنگ ،ایف آئی اے نادرا سمیت تمام متعلقہ صوبائی ادارے 15 دنوں میں ریکارڈ پی اے سی کو بھجوایا جائے ۔ سنیٹر محس عزیز نے کہا کہ میرا اختلافی نوٹ ہے یہ پی اے سی کے اختیارات کا ناجائز استعمال ہے ۔ نورعالم خان نے کہا کہ اختلافی نوٹ لکھ کر بھیج دیں ۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.