چیف جسٹس 3 سینئر ترین ججز سے ہوگا، آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی

0

اسلام آباد : 26ویں آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے، مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کریگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا، آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوسکے گا،خصوصی کمیٹی کے دوسرے ان کیمرا اجلاس میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی،اجلاس میں جے یو آئی نے بھی اپنا مسودہ پیش کر دیا، ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں حکومتی جماعتیں ایک پیج پر آگئی ہیں، جے یو آئی نے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے آئینی عدالت کی جگہ بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا،پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ آئینی عدالت بنانا بالکل غلط ہے، جبکہ وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ کچھ غیر آئینی نہیں ہو رہا، جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت سے کوئی معاملات طے نہیں پائے ہیں، ہم نے 23 نکات پر مشتمل اپنامسودہ تیار کرلیاہے، ہماری جدوجہد اور سیاست کسی شخص یا ادارہ کی نہیں ہے بلکہ آئین،جمہوریت اور عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہے۔ تفصیلات کے مطابق مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملے پر ہفتے کو بھی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی زیرِ صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس کے دوران جے یو آئی نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا، حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولہ سیاسی جماعتوں سے ساتھ شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائیگی، حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیاہے، مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی، آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہونگے، وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو ارکان لیے جائینگے، اسکے علاوہ صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہوگی، مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی اہلیت رکھنے والے کے نام پرمشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کرینگے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیئے جائینگے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائیگی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دینگے، وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سینئر ترین جج کی بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینیئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا۔ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترامیم کے 56 نکاتی مسودہ پر پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کی، مولانا فضل الرحمٰن کو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کا حصہ بنایا جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر بھی ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں کا شکوہ کیا۔ وفاقی وزیر قانون نے اپوزیشن لیڈر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی ترمیم پر تجویز دیں یہ معاملہ بعد کا ہے، پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے، اجلاس میں مختلف جماعتوں کے مسودوں پر غور کیلئے ذیلی کمیٹی بنا دی گئی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ، ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے 2 ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے، کمیٹی 2 روز میں سفارشات مرتب کرکے خصوصی کمیٹی کو دیگی،ذیلی کمیٹی مخصوص کمیٹی کو رپورٹ دیگی، ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی بھی شرکت کرسکے گا، خصوصی کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر کو ہو گا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ساری جماعتوں کے مسودوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے، پی ٹی آئی کے اختلافات زیادہ ہیں، انکے تحفظات بھی ہیں، پی ٹی آئی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اجلاس کے موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں گفت و شنید سے بات آگے بڑھتی ہے، کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل نہیں، ایک ماہ سے اس مسئلے پر عوام میں بحث چل رہی ہے، اس میں کون سی غیرآئینی چیز ہے؟ اپوزیشن کے دوستوں سے کہوں گا اپنی تجاویز بھی دیں، صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہونگے،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا۔بلاول بھٹو نے حوالہ جات کے ساتھ ٹویٹر پیغام میں کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی مرتبہ وفاقی آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931 کو لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی، انکی یہ تجویز تقریباً پی پی پی کی پیش کردہ تجویز سے مماثلت رکھتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قائداعظم کی جانب سے عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کو کم کرنے کا حل تھا جو ان کو دیے گئے وسیع دائرہ اختیار کی وجہ سے تھا، قائداعظم کی تجاویز بعد میں جرمنی کے 1949 کے بنیادی قانون سے بھی مماثلت رکھتی تھیں جس نے وفاقی آئینی عدالت قائم کی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور بینچ کا فرق ہے، پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، امید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے حکومت کے 56 نکاتی مسودے کے جواب میں 24 نکات پیش کرتے ہوئے کہا کہ 200 سے بھی کم آئینی مقدمات کیلئے بڑے سیٹ اپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں ،جماعت اسلامی نے ہمیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پر تحفظات کا ابھی تک نہیں کہا، جب جماعت اسلامی کہے گی تو دیکھیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ آج ہماری طرف سے کمیٹی میں کوئی مسودہ پیش نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ دیکھیں گے حکومت کن معاملات پر بات کرتی ہے۔ترمیم کسی شخص سے متعلق تو نہیں۔پیپلزپارٹی رہنما راجہ پرویز اشرف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات درست سمت کی طرف جا رہے ہیں، مولانا صاحب نے گزشتہ روز بہت اچھی بات کی ہے، مولانا صاحب نے کہا ہےکہ ایک متفقہ ڈرافٹ دینگے، پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی آئینی عدالت کو ترجیح سمجھا،یہ آئینی ترمیم عدالت پر حملہ ہر گز نہیں ہے، ججز کی تعیناتی پر مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار ہیں، کہیں ایسا نہیں کہ سنیارٹی کی بنیاد پر ججز تعینات ہوں، سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیوں سے ڈیم فنڈز ہی بنے ہیں،آئینی ترمیم میں شفافیت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہم نے آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیکھا، ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تینوں جماعتیں ضرورت کے تحت اصلاحاتی ایجنڈے کی مخالفت یا حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی عدالتی اصلاحات سے متعلق ماضی میں حق میں تھی، آج مخالف اس لیے کررہی کہ سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا، اصول کہاں ہیں ہم تو اصولوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مجوزہ بل میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے البتہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جائیگا، مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے کی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائیگی۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائیگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا۔ وزیرقانون نے کہا کہ زیرالتوا مقدمات کی تعداد کم ہوکر نہیں دے رہی، آپکے سامنے ہے کہ نظام چوک ہوا پڑاہے، فیصلوں پر کس طرح تنقید ہوتی ہے، عدالتی فیصلوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ آئین کو دوبارہ لکھا گیا ہے، ان چیزوں کو بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے 15 اکتوبر کے احتجاج کے اعلان پر اظہار تشویش کیا گیا، اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے کہا کہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف ترمیم کیلئے اتفاق رائے پیدا کریں اور دوسری طرف انتشاری سیاست ،جس پر پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے، حکومت نے فسطائیت کی انتہا کر دی ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمارے کارکنوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، پی ٹی آئی کسی منفی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔عمر ایوب کا کہنا ہے کہ ہم آئینی ترمیم پر اپنا مؤقف کھل کرپیش کرینگے، اُمید ہے ہمیشہ کی طرح ہماری آواز نہیں دبائی جائے گی۔نیشنل پارٹی کے جان محمد بلیدی، پی ٹی آئی کے وفد میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب اور دیگر افراد شامل تھے۔ایم کیو ایم کے فاروق ستار، امین الحق، پیپلز پارٹی کے نوید قمر، راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمٰن بھی خصوصی اجلاس میں شریک تھے۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترامیم میں جوڈیشل کمیشن کا اختیار اور فارمیشن واضح کی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق جے ہو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اوربلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی،دریں اثناء بیرسٹر گوہر علی خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس 65 ہزار سے زائد کیس زیر التوا ہیں جن میں 148 آئینی مقدمات ہیں، 28 سوموٹو کیس التوا میں ہیں، آپ صرف 176 مقدمات کیلئے عدالت بنا رہے ہیں جبکہ سارا بوجھ پھر بھی سپریم کورٹ کے پاس رہے گا۔ ایسا طریقہ نکالنا چاہیے کہ مقدمات کا بوجھ ختم ہو ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ ایک ربڑ اسٹیمپ کورٹ بنانے جا رہے ہیں جس کے پانچوں ججز وزیراعظم کے مقرر کئے ہوں گے ، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ایک متوازی جوڈیشل نظام بنایا جائے ،علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان آئینی ترامیم کے حوالے سے ڈرافٹ پر زرداری ہاؤس میں مشاورت ہوئی جس میں سید نوید قمر، مرتضٰی وہاب اور سینیٹر کامران مرتضٰی نے شرکت کی، دوران میٹنگ دونوں جماعتوں کے درمیان آئینی ترمیم کے حوالے سے متفقہ ڈرافٹ کی تشکیل کے لئے بات چیت اور اس معاملے پر مزید گفتگو کرنے پر اتفاق ہو ۔ادھرپیپلزپارٹی نے آئینی ترامیم کیلئے اپنا مسودہ جاری کردیا ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے حصہ VII میں ایک باب 1A شامل کیا جا سکتا ہے۔جس میں175AA کے تحت پاکستان کی ایک وفاقی آئینی عدالت(ایف سی سی) ہوگی۔ 175AB کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ چیف جسٹس ایف سی سی ہوں گے۔ ، ایف سی سی میں ہر صوبے کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی، چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے ہر صوبے سے روٹیشن پر ہوگی۔175AC کے تحت وفاقی آئینی عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہوگی تاہم ایف سی سی وقتاً فوقتاً کسی بھی صوبائی دارالحکومت میں بیٹھ سکتی ہے۔175ADکے تحت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184 کو حذف کردیا جائے اس کی جگہ آرٹیکل 175AD پڑھا جا ئے، اور اس میں سپریم کورٹ کا کوئی بھی حوالہ وفاقی آئینی عدالت کے طور پر پڑھا جائے گا۔ (اس سیکشن کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 184 کے تحت تمام اصل دائرہ اختیار اب وفاقی آئینی عدالت کا ہو گا)۔175Eکے تحت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کو حذف کر کےاسے آرٹیکل 175E کے طور پر پڑھا جائے۔ (اس سیکشن کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی دائرہ اختیار اب وفاقی آئینی عدالت کا ہو گا)۔175F کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ ان معاملات میں جہاں اسے دائرہ اختیار حاصل ہے وہ حتمی اور حتمی ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کے خلاف کسی بھی فورم پر اپیل نہیں ہو گی۔اسی طرح آئین پاکستان کے حصہ VII میں ایک باب 2A شامل کیا جا ئے۔191AAکے تحت چار صوبائی آئینی عدالتیں ہوں گی۔ہر صوبہ میں ایک عدالت ہوگی۔191ABکے تحت ہر صوبہ کی آئینی عدالت چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوگی ۔ججز کا تعین حکومت یا ججز تعیناتی قانون کے تحت کیا جائے۔191ACکے تحت صوبائی آئینی عدالت کی مستقل سیٹ صوبائی دارلخلافہ میں ہوگی۔ اور ہائی کورٹس کی طرح اس کی رجسٹریاں ہوں گی۔191ADکے تحت آئین کے آرٹیکل199کو حذف کرکے 191ADکردیا جائے جس کے تحت کا دائرہ اختیار ہائی کورٹ کی بجائے صوبائی آئینی کورٹ ہوگی۔ 191AFکے تحت صوبائی اآئینی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل وفاقی آئینی عدالت میں ہوگی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔مزید یہ آرٹیکل بھی شامل ہوں گے۔ان کے علاوہ مزید آرٹیکل بھی آئین میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔189Aکے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آرٹیکل185کے تحت حتمی ہوگا۔199Aکے تحت ہائی کورٹس قانون کے مطابق ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنیں گی۔وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کیلئے175Aکے بعد175Bشامل کیا جائے۔سب سیکشن ون کے تحت ایک آئینی کمیشن آف پاکستان ہوگا۔ججز کی تقرری کی سفارشات دے گا۔ٹو کے تحت کمیشن میں چیف جسٹس آف سپریم آئینی عدالت۔وفاقی آئینی عدالت کے دو سینئر ترین ججز۔ایک ریٹائرڈ جج آف سپریم کورٹ جس کی نامزدگی چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کریں گے۔وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور۔اٹارنی جنرل آف پاکستان۔ایک وکیل جسے پاکستان بار کونسل نامزد کرے۔دو ممبران سینٹ ایک حزب اقتدا اور ایک حزب اختلاف سے ہوں۔جنھیں قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر نامزد کریں گے۔دو ارکان قومی اسمبلی ہوں گے۔ایک حزب اقتدا اور ایک حزب اختلاف سے جن کو قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر نامزد کریں گے۔سب سیکشن تھری کے تحت صوبائی آئینی عدالتوں میں تعیناتیوں کیلئے کمیشن میں متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس،صوبائی وزیر قانون،صوبائی بار کونسل کا ایک ممبر شامل کیا جائے گا،سب سکیشن فور کے تحت کمیشن میں اکثریتی رائے پر فیصلہ ہوگا۔جو وزیر اعظم کو بھجوایا جائے گا۔وزیر اعظم اسے صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔سب سیکشن فائیو کے تحت کوئی بھی ججز تعیناتی کیلئے پاکستانی شہری اور چالیس برس عمر ہونی چاہیے۔تین سالہ مدت تعیناتی۔بطور ہائی کورٹ وکیل دس سال سے کم تجربہ نہ ہو۔اور سپریم کورٹ میں بطور وکیل انرول ہو۔آئینی ترامیم کے مسودہ میں ججوں کو ہٹانے کے طریقہ کار کے حوالے سے209اے کی ترمیم شامل ہوگی۔جس کے تحت سپریم آئینی کونسل آف پاکستان ہوگی۔کونسل چیف جسٹس سپریم آئینی عدالت۔دو سینئر ترین ججز۔صوبوں کے سینئر ترین دو چیف جسٹس پر مشتمل ہوگی۔اگر کسی کونسل ممبر کے خلاف معاملہ ہوگا تو اس کی جگہ کونسل میں اگلا سنیارٹی میں سینئر چیف جسٹس یا جج شامل کیا جائے گا۔اکثریتی رائے پر فیصلہ ہوگا۔کونسل کسی معاملے پر انکوائری رپورٹ کے ساتھ اپنی رائے بھی صدر مملکت کو بھجوائے گی۔اس طریقہ کار سے ہٹ کر جج کو نہیں ہٹایا جاسکے گا۔کونسل اپنا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کرے گی۔آرٹیکل210کے تحت کونسل انکوائری کے دوران کوئی بھی دستاویزات اورکسی بھی شخص کو بھی طلب کرسکتی ہے۔آرٹیکل211کے تحت کونسل کی کارروائی،صدر مملکت کو بھجوائی جائے والی رپورٹ اور آرٹیکل 209 سیکشن6 کے تحت جج کو ہٹایا جانا کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.