چاول کی برآمدات 6سے7 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم
اسلام آباد: وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ چاول کے برآمد کنندگان آمدنی اور روزگار کا بنیادی ذریعہ ہیں، حکومت مستقبل قریب میں چاول کی برآمدات کو 4 ارب ڈالر سے بڑھا کر 6سے7 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف رکھتی ہے، حکومت یورپ میں بین الاقوامی فوڈ سیفٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے معیارات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (REAP) کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا۔ وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ حکومت چاول کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے بین الاقوامی معیار کو پورا کر رہی ہے اور یورپی فوڈ سیفٹی کے معیارات کی تعمیل کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس یورپی چاول کی برآمدی منڈی کا 25 فیصد حصہ ہے، جو کہ بھارت کے 16 فیصد کو نمایاں طور پر پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
ملاقات میں وزیر تجارت نے اس مسابقتی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور برآمد کنندگان کے درمیان زیادہ تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔جام کمال نے پاکستان کی معیشت میں چاول کی برآمدات کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاول برآمدی قدر میں کپاس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک پاکستانی تجارتی وفد نومبر میں ملائیشیا کا دورہ کرے گا، اور میں ذاتی طور پر چاول اور دیگر شعبوں کے لیے نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے اس کی قیادت کروں گا۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک فیصل جہانگیر نے کہا کہ پاکستان کی چاول کی برآمدات کو اپنے بہت سے حریفوں کے مقابلے میں کم ریگولیٹری چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ سال پاکستانی چاول کے برآمد کنندگان کے خلاف کیڑے مار ادویات اور دیگر مسائل کے لیے صرف 74 ریپڈ الرٹس جاری کیے گئے، جبکہ ہندوستان کے لیے یہ تعداد 264 تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان غذائی تحفظ کے معیارات کے حوالے سے سب سے کم خطرہ والے ممالک میں سے ایک ہے، ترکی، بھارت، اسپین، اٹلی اور برطانیہ جیسے ممالک کو نمایاں طور پر زیادہ تعداد میں الرٹس کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ چاول کی تھوڑی مقدار پیدا کرنے کے باوجود، بلوچستان پاکستان میں بہترین نامیاتی چاول کی کاشت کے لیے جانا جاتا ہے ۔ وفاقی وزیر تجارت نے ایسوسی ایشن کو کہا کہ وہ قابل عمل تجاویز پیش کریں تاکہ کہ وزارت تجارت برآمد کنندگان کو آئندہ سہولیات فراہم کر سکے۔
انہوں نے فوڈ سیفٹی کے کسی بھی خدشہ کو دور کرنے کے لیے ایک مضبوط میکانزم کے قیام کی اہمیت پر بھی زور دیا۔