مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت سے تعاون کا عندیہ

0

اسلام آباد: سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ فارم 45 کی ہویا فارم 47کی اب یہی حکومت ہے ‘اسی سے کام لینا ہےقوم کے مسائل یہیں بحث سے حل ہونگےاگر کل ریاست کو بھی کوئی ترمیم کرانا ہوگی تو بھی اسی ایوان سے ہی ہوگی‘ یہ ایوان اور لوگ ہونگے تو کچھ ہوگا‘سیاسی قائدین اور پارلیمانی جماعتوں کو ملک کیلئے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں‘کے پی اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی‘ معاملات سیاستدانوں کے حوالے کئے جائیں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کیلئے پارلیمانی وفودبھیجے جائیں ملک کی کسی بھی خدمت کیلئے حاضر ہوں سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کیلئے فیصل آباد کا گھنٹا گھر بن جانا مسئلے کا حل نہیں،اپوزیشن لیڈر عمرایوب کا کہناتھا وزیراعظم ‘پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم ہوش کے ناخن لیں‘ اختر مینگل کے استعفے کو خدارا ہلکا نہ لیں وہ ہم سے زیادہ محب وطن ہیں‘بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ مشن جائے اور حالات دیکھے،عمر ایوب کی بات کاجواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے رہنماء حنیف عباسی نے کہا کہ اپنی افواج کیخلاف اتنا زہر نہ اگلیں مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کو اسرائیل، امریکا سے فنڈنگ آرہی ہےاپوزیشن لیڈر ہمارے افسراور جوانوں کی قربانیوں کا بھی ذکر کریں،بدھ کو قومی اسمبلی میں بلوچستان اور خیبر پختونخواکی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہےصوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے انکے حقوق کوتسلیم کریں سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جارہی ہے سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کیلئے فیصل آباد کا گھنٹا گھر بن جانا شاید ایک خواہش ہوسکتی ہے مگر مسئلے کا حل نہیں،ڈیرہ اسماعیل خان اورلکی مروت کا علاقہ مسلح قوتوں کے قبضہ میں ہے‘حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کچھ علاقوں میں آج سکولوں اور کالجوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جاسکتا‘پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا یہاں تک صورتحال خراب ہوگئی ہے سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے کچے کی صورتحال کو دیکھ کر پریشان ہیں‘پارلیمنٹ آگے بڑھے اوران سے گفتگو کی جائے‘جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو ہم جا کر وہاں صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں‘جبری گمشدگیاں ایک اہم مسئلہ ہے، اس پر بات چیت ہونی چاہیے حکومت کی ذمہ داری ہے انہیں بتائیں کہ انکے پیارے اس وقت کہاں ہیں چاہتا ہوں کہ لوگ افواج پاکستان پر اعتبار کریں،اختر مینگل نے استعفیٰ دیدیا‘آپ واضح ہدایت دیں کہ یہ ایوان مضطرب ہے اس صورتحال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، ہم لڑیں گے، تنقید کریں اپوزیشن کا کردار ادا کرینگے لیکن ملک کو ضرورت پڑی تو اپنا کردار نبھائیں گے، کیا حکومت کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے کیا انکے پاس صلاحیت ہے فیصلہ کرنے کی ، اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود بات چیت کرے اور ملک کے اندر اضطراب کو ختم کرے، ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں، عالمی قوت اسکا فائدہ اٹھا رہی ہیں، عمر ایوب نے کہا کہ چیزوں کو ذرا سنجیدگی سے دیکھیں وزرات دفاع کے اخراجات کا پوچھتے ہیں تو اس حوالے سے کہیں پر کوئی خبر نہیں آتی‘بلوچستان حکومت کے وزرا ریڈ زون سے آگے جا کر اپنے حلقوں میں بات نہیں کر سکتے ان لوگوں کی رنجشیں درست ہیں، انکے وسائل پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، بلوچستان کے نوجوان پروفیشنل ہیں، آپ نے انہیں دیوار کیساتھ لگا دیا ہے، ماہ رنگ بلوچ کو کسی بھی جگہ پر دکھایا نہیں جاتا، سوشل میڈیا پر قدغن لگائی جارہی ہے، جبری گمشدگیوں والے معاملہ پر کمیٹی بنائیں‘کسی کو اختیار نہیں کہ آپ محب وطن کا سرٹیفکیٹ دیں، حنیف عباسی نے کہا کہ اپنی افواج کی عزت کریں، صبر رکھا کریں، ملٹری کورٹ ملک میں موجود ہیں‘اتنی کمزور فوج نہیں ہے کہ آپ گالیاں دیں گے تو وہ ڈر جائیں گےاب بھی موقع ہے معافی مانگیں، میں ساتھ چلتا ہوں ان سے جا کر آپکو معافی دلواتا ہوں، انکو ’’گڈٹوسی یو‘‘والے جج چاہئیں لیکن وہ ختم ہو گئے آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہم نے سزائے موت کی کوٹھڑی دیکھ کر بھی نہیں کیں‘دنیا اسوقت پاکستان پر حملہ آور ہے اور اپوزیشن لیڈر انکے آلہ کار ہیں آپ کیخلاف وعدہ معاف گواہ تیار ہو چکے ہیں، آپ بچنے کی تدبیر کریں تھوڑا صبر کریں، آپکی رات لمبی ہے اسلئے آرام سے چلیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.