آئندہ مالی سال کا 18 ہزار 887 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور
اسلام آباد:قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2024-25 کے تقریباً 18 ہزار 887 ارب روپے کے وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی۔ گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 جبکہ گریڈ 17 سے لیکر گریڈ 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد جبکہ پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کتابوں، نیوز پرنٹ، امراض قلب کیلئے سرجیکل آلات، سسٹنٹس اور دیگر طبی آلات و اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی گئی ہے، برآمدات کیلئے مقامی خریداری پر بھی ٹیکس میں چھوٹ دیدی گئی ہے، اساتذہ، تحقیق، زرعی شعبے میں استعمال ہونے والے مداخل پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رہیں گے۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم 1500 ارب روپے رکھا گیا ہے، سبسڈیز کا حجم 1363 ارب روپے اور مجموعی گرانٹس کا حجم 1777 ارب روپے ہو گیا، کم سے کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے، ٹیکس محصولات کا ہدف12970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے، دفاعی ضروریات کیلئے 2122 ارب روپے کا بجٹ مختص کر دیا گیا جبکہ اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رکھنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کی منظوری سے فروری 2024 کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے، آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں معیشت میں نجی شعبہ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، بجٹ میں خسارے کو کم کرنے، منصفانہ ٹیکس پالیسی کے ذریعے آمدنی بڑھانے اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کیلئے اقدامات شامل کئے گئے ہیں، بجٹ میں توانائی کے شعبے میں پیداواری لاگت اور مہنگائی میں کمی کیلئے بھی اقدامات شامل کئے گئے ہیں، آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اورٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کو شامل کیا گیا ہے، ایف بی آر میں کثیر الجہتی اقدامات پہلے سے جاری ہیں۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ملک کے مجموعی وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیلئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع قومی مالیاتی معاہدہ کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں پنشن کے نظام میں اصلاحات کا عمل شامل کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے سے سالانہ 45 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے، وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے ایک اعلی سطح اور بااختیار کمیٹی تشکیل دی گئی جو حکومتی ڈھانچے کا بغور جائزہ لے گی اور اگلے ڈھائی ماہ میں اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی، ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے اور برآمدات بڑھانے کیلئے ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنایا جائے گا، سرمایہ کاری بورڈ کے تحت پاکستان ریگولیٹری ماڈرنائزیشن اینیشیٹو کے تحت آٹومیشن کے ذریعے کاروباری ماحول کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ سرمایہ کاری برآمدات اور معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے۔ پروکیورمنٹ کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے گی۔ ای پروکیورمنٹ سے سرکاری اخراجات میں 10 سے 20 فیصد تک کمی لائی جائے گی جس سے نظام سے کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ نظام 37وزارتوں جبکہ 279 پروکیورنگ ایجنسیوں میں نافذ ہو چکا ہے، صرف پی آئی اے، روزویلیٹ ہوٹل، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور فرسٹ وومن بینک جیسے اداروں کی جاری نجکاری میں تیزی لائیں گے بلکہ نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کیلئے دیگر سرکاری اداروں کو پیش کرنے کا ایک ٹھوس پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔ توانائی، مالیاتی اور صنعتی شعبوں میں ایس او ایز کی ملکیت اور انتظام کی نجی شعبے کو منتقلی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ بڑے ہوائی اڈوں کو آئوٹ سورس کیا جائے گا، جس سے نہ صرف مسافروں کو بہتر سہولیات میسر آئیں گی بلکہ آمدن میں اضافہ ہو گا، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو سب سے پہلے آئوٹ سورس کیا جائے گا، اس سلسلے میں عالمی مسابقتی بڈنگ کے ذریعے 15 جولائی 2024 تک بولیاں وصول ہو جائیں گی۔ لاہور اور کراچی ایئر پورٹس کی آئوٹ سورسنگ کا آغاز چند ماہ بعد کیا جائے گا۔ پنشن سکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی، نئے ملازمین کیلئے کنٹربیوٹری پنشن سکیم متعارف کرانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس میں حکومت کا حصہ ہر ماہ ادا ہو گا، اس سے مستقبل کے ملازمین کی پنشن ان کی ملازمت کے آغاز سے ہی مکمل فنڈڈ ہو گی، اس کے علاوہ پنشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ معاشرے کے معاشی طورپر کمزورطبقات کیلئے بی آئی ایس پی کے بجٹ میں 27 فیصد اضافے کیاگیاہے ، جس کے بعدبی آئی ایس پی کابجٹ 593 ارب روپے ہوگیا ، کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کی جائے گی، تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مالی خود مختاری کا ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغاز ہوگا ۔وزیر اعظم کے اعلان کردہ کسان پیکیج کے تحت سکیم کیلئے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں گردشی قرضوں کے بہترانتظام وانصرام کویقینی بنایاگیاہے ، بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے جن کے نتیجے میں سال کے اختتام تک سرکلر ڈیٹ سٹاک میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا، نقصانات کو کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیویشن کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا، این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کی جائیگی ،9ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کیا جائیگا ، بجلی کی پیداوار کو مہنگے برآمدی فیول کی بجائے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کرنے کو ترجیح دی جائیگی ، آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں توانائی کے شعبہ کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، این ٹی ڈی سی کے سسٹم میں بہتری کیلئے 11 ارب روپے کے فنڈزمختص کئے گئے ہیں ، آبی وسائل کیلئے 206 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ سرمایہ کاری پینے کے صاف پانی تک رسائی، زرعی پیداواری صلاحیت اور ہائیڈل پاور سے متعلقہ شعبوں میں لگائی جائے گی، مہمند ڈیم کیلئے 45، دیامیر بھاشا کیلئے 40، چشمہ رائیٹ بینک کینال کیلئے 18 ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کیلئے 10 ارب روپے مختص کردئیے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی شعبہ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ، آئی ٹی سیکٹر کیلئے 79 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈیجیٹلائزیشن اور اصلاحات کیلئے 7 ارب روپے ، کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے 8 ارب روپے، ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اسلام آباد کیلئے 11 ارب روپے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، اسلام آباد کے 167 سرکاری سکولوں میں بنیادی ڈھانچہ اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کی گئی ہے ، اسلام آباد کے 200 پرائمری سکولوں میں طلبا کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جائے گا، پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں قائم کی جائیں گی، اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو نسٹ، این ایس یو، نمل اور کامسیٹس جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلی نظام کے حامل تریبتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا، 6 ماہ کے آئی ٹی کورسز کرائے جائیں گے، پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلبا کیلئے ایجوکیشن ووچر سکیم متعارف کرائی گئی ہے ، دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کیلئے پنک بسیں متعارف کرائی جائیگی ، وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جائیگا ۔ بیرون ملک مقیم اہل وطن کی مدد کیلئے متعدد سہولیات متعارف کروائی گئی ہیں ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر کے فروغ کیلئے 86.9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، یہ رقم ٹی ٹی چارجز کی واپس ادائیگی، سوہنی دھرتی سکیم اور دیگر سکیموں کیلئے استعمال کی جائے گی، افرادی قوت کو مارکیٹ کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کیلئے سنٹر آف ایکسلینس قائم کئے جائیں گے، تارکین وطن کی شکایات کے بروقت ازالے کیلئے موثر نظام بنایا جائے گا، اس کیلئے ایک بین الاقوامی کال سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ نئے ایمیگرینٹس کیلئے جلد از جلد بیرون ملک آباد کاری کیلئے قرض کی سہولیات فراہم کرنے پر کام جاری رہے گا ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر ملکی خدمات کے اعتراف کیلئے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایاجائیگا ۔ برآمدات کے فروغ کیلئے ایگزم بینک کے ذریعے ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کیلئے مختص رقم 3 ارب 80 کروڑ سے بڑھا کر 13 ارب 80 کروڑ روپے کردی گئی ہے ۔ سٹیٹ بینک کے ذریعے 539 ارب روپے کے ایکسپورٹ کریڈٹ کی فراہمی کی جائے گی، وزیراعظم کی ہدایت پراس سہولیات کا کم سے کم 40 فیصد ایس ایم ایز سیکٹر پر مرکوزہوگا ، حکومت کی ایس ایم ایز حکمت عملی کے تحت ایس ایم ایز کے کریڈٹ کو 540 ارب روپے سے بڑھا کر 11 سو ارب روپے کردیاگیاہے ، مستقبل میں یہ اقدام پاکستان کے برآمدی شعبے کو ایک اہم لائف لائن فراہم کرے گا۔ ایس آئی ایف سی کے تحت خلیج تعاون کونسل ممالک سے زراعت، لائیو سٹاک، کان کنی اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کو لانے پرتوجہ مرکوز رہے گی ، سی پیک فیزٹوکے تحت چینی کمپنیوں کو خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کر سکیں گی، سی پیک کے دوسرے مرحلے سے ملک میں صنعتی شعبے اور برآمدات میں اضافے کا ایک نیا باب کھلے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی کو فعال کیا جائیگا ، نیشنل کلائمیٹ فنانس سٹرٹیجی اکتوبر 2024 تک تیار کر لی جائے گی جس کا مقصد گلوبل کلائمیٹ فنانس کو پاکستان میں لانا ہے۔ ای بائیکس کیلئے 4 ارب اور توانائی کی بچت والے پنکھوں کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، مالی سال 25-2024 کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہو گا۔ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے جو کہ رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے، وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7 ہزار 438 ارب روپے ہو گا۔ وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3 ہزار 587 ارب روپے ہو گا، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 9 ہزار 119 روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں سے 9 ہزار 775 ارب روپے سود کی ادائیگی کیلئے ہونگے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 14 سو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 100 ارب روپے اضافی مختص کئے گئے ہیں، دفاعی ضروریات کیلئے 2122 ارب روپے فر اہم کئے جائیں گے، سول انتظامیہ کیلئے 839 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، پنشن کے اخراجات کیلئے 1014 ارب روپے، بجلی گیس اور دیگر شعبوں کی سبسڈیز کیلئے 1363 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع گلگت بلتستان، اے جے کے، بی آئی ایس پی ، ایچ ای سی، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کیلئے 1777 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام میں جاری منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے، ترقیاتی بجٹ میں اضافہ سے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور ٹرانسپورٹیشن، توانائی، آئی ٹی اور آبی وسائل کے انتظام میں اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم اور اخلاص کا مظہر ہے تا کہ معاشی ترقی میں سہارا ملے اور اہل وطن کے معیار زندگی میں بہتری آئے۔پی ایس ڈی پی میں جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے اور تقریبًا اکیاسی (81) فیصد وسائل جاری منصوبوں کے لیے جبکہ صرف انیس (19) فیصد وسائل نئے منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کا شعبہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مالی سال 2024-25 کی پی ایس ڈی پی میں اس شعبے کے لیے انسٹھ (59) فیصد رقم مختص کئے گئے ہیں ۔ سماجی شعبے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں (20) فیصد رکھے گئے ہیں ، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے دس (10) فیصد وسائل مختص کیے گئے ہیں۔ تقریبا گیارہ اعشاریہ دو (11.2) فیصد وسائل دیگر شعبوں جیسے آئی ٹی اور ٹیلی کام، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، گورننس اور پروڈکشن سیکٹر وغیرہ کے لیے مختص ہیں۔ پی ایس ڈی پی 2024-25 کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی طرف سے منظور کردہ گائیڈ لائن کے مطابق معیار پر اترنے والے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جن میں آبی وسائل ، ٹرانسپورٹیشن، مواصلات اور توانائی کے شعبوں کی طرف خاص توجہ دی جائے گی۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے، تاکہ ان کی تکمیل مقررہ وقت پر ہو سکے اور تمام شعبوں میں ایسے منصوبے جن پر خرچہ اسی (80) فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے اور جنہیں مالی سال 25-2024 کے دوران مکمل کیا جاسکتا ہے اور معیشت کو بر وقت مالی اور اقتصادی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں ہائی ویز کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے، بڑے شہروں اور علاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اور ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ برآمدات اورپیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے نئے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی ، پی ایس ڈی پی میں اس حوالہ سے متوازن ترقی کیلئے اقدامات کوشامل کیاگیاہے، اس ضمن میں نجی شعبہ کا کردارکلیدی اہمیت کاحامل ہے، ٹرانسپورٹیشن کے شعبہ میں ہائی ویز کے نیٹ ورک کو بہتربنانے، بڑے شہروں اورعلاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اورٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کیلئے موجودہ بنیادی ڈھانچہ کوجدید بنانے کے منصوبوں پرتوجہ دی جائیگی ، ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن کا مقصد ملک کے توانائی کے بنیادی ڈھانچہ کو وسعت دینا اور جدید بنانا ہے، جن میں ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر، سولر پاور پلانٹس کی تنصیب اور ٹرانسمیشن لائنیں بچھانا شامل ہیں تاکہ بجلی کی موثراورفعال تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ سیلاب میں کمی اور زرعی وگھریلو استعمال کے لیے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیموں، آبپاشی کے نظام، اور نکاسی آب کے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے پانی کے وسائل کوموثرانتظام وانصرام خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔ یہ منصوبے بنیادی ڈھانچہ کو ترقی دینے اور ٹرانسپورٹیشن، توانائی اور آبی وسائل کے انتظام میں در پیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ اقتصادی ترقی میں مدد ملے اور شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ پی ایس ڈی پی میں انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے تقریباً آٹھ سو ارب روپے کی خطیر رقم مختص کئے گئے ہیں جس میں سے توانائی کے شعبہ کے لیے 253 ارب روپے، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن سیکٹر کے لیے 279 ارب روپے، واٹر سیکٹر کے لیے دو سو چھ (206) ارب روپے جبکہ پلاننگ اور ہا ئوسنگ کے لیے چھیاسی (86) ارب روپے شامل ہیں۔ سماجی شعبے کے لیے رواں سال میں دو سو چوالیس (244) ارب روپے کے مقابلے میں دو سو اسی (280) ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ خصوصی علاقے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لیے پچھتر (75) ارب روپے، خیبر پختونخوا کے ضم ہونے والے علاقوں کے لیے چونسٹھ (64) ارب روپے اور سائنس اور آئی ٹی کے لیے اناسی (79) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح پروڈکشن سیکٹر بشمول زراعت کے لیے پچاس (50) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ہنربہترکرنے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے تمام شراکت داروں کی مشاورت سے کراچی کے انفراسٹرکچر کو جدت کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس کے لیے ایک جامع کراچی پیکیج متعارف کرایاگیاہے ، حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور بے نظیر آباد کے لیے بھی منصوبے مرتب کئے گئے ہیں ، کراچی کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کے لیے 4-K منصوبے کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے تاکہ اس اہم منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جایا جائے۔ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد کے ہسپتالوں کوجدید بنانے کرنے کے لیے جامع پلان مرتب کیا جائے گا تاکہ اسلام آباد، راولپنڈی، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گردو نواح کے علاقوں کی عوام کو علاج معالجہ کی جدید سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ خاص طور پر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور قائداعظم ہیلتھ ٹاور کے نام سے ایک نیا منصوبہ شروع کیا جائیگا۔ ٹیکس کی بنیاد کووسیع کر کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائیگا، غیر دستاویزی معیشت کاخاتمہ کیا جائیگا۔ مالیاتی بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اساتذہ، تحقیق، زرعی شعبے میں استعمال ہونے والے مداخل پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رہیں گے۔ ایکسپورٹرز کی آمدن پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے اگر ان کا منافع نہیں ہو گا تو ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تاجروں، پرچون فروشوں اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لا رہے ہیں۔ اگر ہم نے ساڑھے 9 سے 13 فیصد کی طرف جانا ہے تو ہمیں یہ اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اسی طرح ہم ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کیلئے ہمیں خود انحصاری لانا ہو گی تاکہ اپنے وسائل کو ہم ہر شعبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے میں استعمال کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح ہدایات دے رکھی ہیں کہ زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں کا کسی دوسرے شعبے سے موازنہ نہ کیا جائے کیونکہ یہی دو شعبے ملک کو آگے لیکر جا سکتے ہیں۔