قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم منظور
اسلام آباد:قومی اسمبلی نے دوتہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی۔
جس کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقرری کی مدت تین سال ہو گی،12 رکنی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز کے پینل میں سے نئے چیف جسٹس کا نام وزیر اعظم کو پیش کرے گی، سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا جائے گا جس میں چیف جسٹس سمیت چار سینئر ترین ججز اور قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو دو اراکین بھی شامل ہوں گےجبکہ ملک سے یکم جنوری 2028تک سودی کاروبار کاخاتمہ کر دیا جائے گا۔اتوار کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کی کہ دستور 26ویں ترمیم بل 2024سینیٹ سے منظور کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے۔سپیکر سردار ایاز صادق نے ایوان سے تحریک کی منظوری لی تحریک کے حق میں 225 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے۔جس کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے بل ایوان میں پیش کیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان سے بل کی اراکین کے ووٹ کے ذریعے شق وار منظوری لی۔وزیر قانون نے ایوان میں بل منظوری کے لئے پیش کیا۔سپیکر نے ڈویژن کی تفصیلات سے ارکان کو آگاہ کیا۔5 منٹ کے لئے بلز بجائی گئیں۔ارکان کے دو لئے دو مختلف گیلریاں مقرر کی گئی تھیں۔ایوان نے دوتہائی اکثریت سے ڈویژن کی بنیاد پر 26 ویں آئینی ترمیم بل 2024 کی منظوری دے دی۔بل کی منظوری کی تحریک کے حق میں 225 اور مخالفت میں کل 12 ووٹ پڑے۔
26ویں آئینی ترمیم کا بل 27ترامیم پر مشتمل ہے۔حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے علاوہ اپوزیشن میں شامل جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دیا۔قومی اسمبلی سے منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے بل 2024میں آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا جائے گا جس میں تین سیئنر ترین جج، آئینی بنچز کے پریزائیڈنگ جج اس کے ممبر ہوں گے ، وفاقی وزیر قانون و انصاف ، اٹارنی جنرل پاکستان ، سپریم کورٹ میں 15سالہ تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد کردہ وکیل 2)سال کے لیے (،خاتون یا غیر مسلم جو رکن پارلیمان نہ ہو اور وہ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کے طور پر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتا ہو اسے سپیکر قومی اسمبلی 2سال کے لیے نامزد کریں گے۔قومی اسمبلی اور سینٹ سے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ایک ایک رکن نامزد کریں گے، اگر کسی وقت قومی اسمبلی وجود میں نہیں ہے تو پھر یہ اراکین سینٹ سے لئے جائیں گے، یہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی بینچ کا تقرر بھی کرے گا، ججز کی تقرری کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کیلئے ایک یکساں معیار ترتیب دیا جائے گا، اگر کسی جج کی کارکردگی یا صلاحیت کے حوالہ سے مسائل ہوئے تو یہ جوڈیشل کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کورپورٹ کرے گا۔ آئینی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کی میعاد 3 سال کیلئے ہو گی ، چیف جسٹس کے لیے عمر کی حد 65سال ہو گی تاہم چیف جسٹس اگر اس عمر سے قبل 3سال کا دورانیہ مکمل کر لیتا ہے تو وہ اس کے بعد سبکدوش ہو جائے گا ۔چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے 3 سینئر ترین ججوں میں سے دو تہائی اکثریت سے پارلیمانی کمیٹی کوئی ایک نام وزیراعظم کو بھجوائے گی جو چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔یہ پارلیمانی کمیٹی 12 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ممبران کی نامزدگی پارلیمانی لیڈر کریں گے۔اس پارلیمانی کمیٹی میں 8اراکین قومی اسمبلی جبکہ 4سینیٹ سے لئے جائیں گے ۔یہ کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14دن قبل نئے چیف جسٹس کی نامزدگی تجویز کرے گی تاہم 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 3روز قبل یہ نامزدگی تجویز کی جائے گی۔اس کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہو گا ، اس کی کارروائی پر آرٹیکل68لاگو نہیں ہو گا ۔ آئین کے آرٹیکل 191کے بعد نیا آرٹیکل 191اے شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دیئے جاسکیں گے جو سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل ہوں گے،جن میں ہر صوبے سے مساوی نمائندگی ہو گی،ان میں سے سینئر ترین جج آئینی بینچوں کا پریذائیڈنگ جج ہو گا ۔آرٹیکل 185کی شق 3کے تحت بینچ میں اراکین کی تعداد 5سے کم نہیں ہو گی،آرٹیکل 193میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت ہائی کورٹ کا جج بننے کے لئے عمر کی حد 45 سال سے کم کرکے 40سال کردی گئی ہے اور بطور وکیل ہائیکورٹ میں 10سال کا تجربہ کا حامل ہونا بھی لازمی ہوگا۔اسی طرح آرٹیکل 202کے بعد 202اے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت ہائیکورٹ میں بھی آئینی معاملات نمٹانے آئین کی تشریح بارے کیس نمٹانے کے لیے آئینی بینچ بنائے جاسکیں گے جس کا سربراہ نامزد ججوں میں سے سینئر ترین جج ہو گا۔آئین کے آرٹیکل 209میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ کونسل چیف جسٹس آف پاکستان 2سینئر ترین سپریم کورٹ اور 2سینئر ترین ہائیکورٹ کے ججز پر مشتمل ہو گی۔اگر کسی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس آئینی بینچ کا سربراہ ہوا تو دوسرا سینئر ترین جج کمیشن کا ممبر ہو گا۔اس کے علاوہ اس آئینی ترمیم میں آرٹیکل 9 اے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو صاف اور صحت مند ماحول کی فراہمی اس کا حق ہو گا۔اسلامی نظریاتی کونسل ، وفاقی شرعی عدالت اور سود کے خاتمہ سمیت پانچ ترامیم بھی آئینی ترمیم کا حصہ بنائی گئی ہیں۔آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بنچز کے پاس ہوگا۔آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کوئی بھی کیس کسی ایک ہائی کورٹ سے کسی دوسری ہائی کورٹ منتقل کرسکے گی۔ایک اور ترمیم کے تحت وزیر اعظم یا کابینہ کی جانب سے صدرمملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائز پر کوئی عدالت،ٹربیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکے گی۔سود کے مکمل خاتمے کے حوالے سے آرٹیکل 38 میں شق ایف میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق یکم جنوری 2028 تک جس حد تک ممکن ہوا، ملک سے سود کا خاتمہ کردیاجائے گا۔