شہباز شریف سے ملاقات کے دوران صدر شی جن پنگ نے واضح کیا کہ دونوں ممالک تمام معاملات پر تعاون مزید بڑھائیں گے، چینی سفیر جیانگ زیدونگ کا انٹرویو
اسلام آباد ۔ پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ ذیدونگ نے کہا ہے کہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ یہ اصول عالمی امن، سلامتی، خوشحالی اور مشترکہ روشن مستقبل کے حامل ہیں ،وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین نے اپنا مقصد بھرپور انداز میں پورا کیا اور اس سے ہمہ جہت مثبت نتائج حاصل ہوئے ،دونوں ممالک کی قیادت پاک- چین تعلقات کے مذید استحکام کی خواہاں ہے۔
ایک انٹرویو میں چین کے سفیر کا کہنا تھا کہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر چین اس یادگاری کانفرنس کو بہت اہمیت دیتا ہے ۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے خود اس کانفرنس میں شرکت کی اور اہم خطاب کیا جس میں پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کے مفہوم کی وضاحت کی گئی ۔انسانی معاشرے کی تعمیر کا راستہ بتایا گیا گلوبل ساؤتھ کو بہتر مستقبل بنانے کے لیے دنیا کے تمام ممالک کے عوام کے ساتھ کام کرنے کیلئے ایک مضبوط پیغام بھیجا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کا اس موقع پر خطاب پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی تاریخی حکمت اور دنیا کے مسائل اور چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے جس کی اجلاس میں موجود تمام فریقین نے بھرپور تائید کی۔ چینی سفیر نے کہا کہ 70 سال پہلے چینی رہنماؤں نے پہلی مرتبہ مکمل طور پر پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول پیش کیے ۔ جن سے ہمیں اس اہم سوال کا تاریخی جواب ملا کہ ریاست سے ریاست کے تعلقات کو درست طریقے سے کیسے سنبھالنا ہے اور اس دنیا کو کیسے بنانا چاہیے۔ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں نے دنیا کو امن، سلامتی، خوشحالی اور روشن مستقبل دیا ہے، جو دنیا اور انسانی معاشرے کی ترقی میں عصری قدر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔مذکورہ کانفرنس کے بیجنگ اعلامیہ کی اہمیت اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کے تصور کو مزید فروغ دینے کے بارے سوال کے جواب میں چینی سفیر نے کہا کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا یہ تصور جسے صدر شی جن پنگ نے پیش کیا اس کی بنیاد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ریاست سے ریاست کا تعلق ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔ دکھ سکھ میں ایک ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور برابری کا ایک ایسا ماڈل قائم کیا ہے، جو امن، ترقی، تعاون اور مشترکہ کامیابی کے عصری رجحان سے مطابقت رکھتا ہے اور جس نے امن اور ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں انہوں نے کہا کہ اس ماڈل نے اقتصادی عالمگیریت کے تاریخی رجحانات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ترقی اور سلامتی کے نئے طریقوں کو تقویت دی ہے ۔ یہ اہم تصور دنیا بھر کے تمام ممالک کے عوام کی عام خواہشات سے مطابقت رکھتا ہے ۔ عالمی تہذیبوں کی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ اس لیے دنیا کے تمام ممالک کے عوام اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ ماڈل زمانے کی ترقی کی قیادت کے لیے مشعل راہ بن گیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ اس کانفرنس میں تبادلہ خیالات کے ذریعے ہر کوئی اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے ۔ نئے دور کے حالات کے تحت ہم تمام ممالک کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں، برابری کے معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کرنا جاری رکھیں گے ۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مساوات کے اصولوں پر عمل کریں ،مشترکہ طور پر مساوی اور منظم دنیا کی وکالت کریں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم مل کر اپنا الگ نظام حاصل کر سکیں۔ بڑے طاقتور اور امیر ممالک کی جانب سے چھوٹے کمزور اور غریب ملکوں پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور مخالفت کریں ، دوسری اہم بات یہ ہے کہ باہمی احترام کی بنیاد کو مزید مضبوط بنائیں، ایک دوسرے کے جوہری مفادات اور اہم خدشات کا احترام کریں، ہر ملک کے عوام کی طرف سے آزادانہ طور پر منتخب کردہ ترقی کے راستوں اور ادارہ جاتی ماڈلز کا احترام کریں اور دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی مخالفت کریں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ امن اور سلامتی کی خواہش کو پورا کریں، مشترکہ طور پرامن معاشرے کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائیں، جی ڈی آئی پر عمل درآمد کریں اور تعاون کے ذریعے ترقی اور سلامتی کو فروغ دیں ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مشترکہ خوشحالی کے لیے ایک ساتھ مل کر کوشش کریں، مشترکہ مفادات کی بنیاد پر جامع اقتصادی عالمگیریت کی وکالت کریں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دیں جی ڈی آئی پر عمل درآمد کریں تاکہ تمام ممالک کے عوام کو ترقی کے ثمرات مل سکیں۔ پانچواں بات یہ ہے کہ مساوات اور انصاف کے تصور کو برقرار رکھیں، مشترکہ طور پر جامع مشاورت، مشترکہ شراکت اور باہمی مفادات کی بنیاد پر علمی انتظامیہ کے تصور کی حمایت کریں۔ چھٹی بات یہ ہے کہ ہم کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جی سی آئی پر عمل کریں اور تمام ممالک کے عوام اور مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین اور اس کے نتائج کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق سوال کے جواب میں چینی سفیر نے کہا کہ یہ دورہ چین پاکستان سدا بہار سٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے ، پاکستان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین قیادت کے درمیان پہلی بار بالمشافہ ملاقات ہوئی ۔ فریقین کی اچھی تیاری اور قریبی تعاون کے تحت اس دورے نے اپنا مقصد بھرپور انداز میں پورا کیا اور ہمہ جہت مثبت نتائج حاصل ہوئے ۔وضاحت کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ وزیراعظم کے دورے سے اسٹریٹیجک تعاون مضبوط ہوا ہے جبکہ چین اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے ، یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت چین پاک تعلقات کی مضبوطی چاہتی ہے ۔ خاص طور پر صدر شی جن پنگ ہمیشہ سے چین پاک تعلقات کی ترقی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران صدر شی جن پنگ نے واضح طور پر نشاندہی کی کہ دونوں ممالک تمام معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور موجودہ تعاون کو مزید بڑھائیں گے ۔ اسٹریٹیجک کوارڈینیشن کو فروغ دیں گے اور مستقبل میں برابری کے معاشرے کی تیزی سے تعمیر کریں گے ۔ چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ روایتی دوستی کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی تعاون کو وسعت دے گا۔ نیشنل پیپلز کانگرس کے چیئرمین جاولے جی نے کہا کہ چین کی نیشنل پیپلز کانگرس پاکستان کی پارلیمنٹ کے ساتھ دوستانہ رابطے کو مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس سے انتہائی متفق ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان غیر متزلزل طور پر چین کے سب سے قابل اعتماد دوست اور شراکت دار رہے گا، چینی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں میں اتفاق رائے ہے کہ دورے سے پاک چین تعاون کو مزید فروغ ملے گا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان عملی تعاون کو مزید مضبوط بنایا گیا اور دونوں ممالک کے تعلقات کی ترقی کے لیے مزید توانائی دی گئی ہے۔ حال ہی میں پاک چین تعاون کو اعلیٰ معیار کے مرحلے میں داخل ہونے کا اہم موقع سامنے آیا ہے، اس دورے کے دوران جاری ہونے والے 32 نکاتی "مشترکہ بیان” میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور خاص طور پر عملی تعاون پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی حکمت عملی کے لحاظ سے دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ بی آر آئی کی اعلی معیار کی مشترکہ تعمیر کے لیے چین کے آٹھ اقدامات کو مزید فروغ دیں گے ۔ اور پاکستان کے” فائیو ایز” کے ترقیاتی فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ سی پیک کے اپ گریڈڈ ورژن کی تعمیر کریں گے ، جس سے چین اور پاکستان کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھوئیں گے ۔ جیانگ ذیدونگ نے کہا کہ دونوں فریقوں نے اتفاق کیا کہ ایم ایل ون منصوبے ، شاہراہ قراقرم ،رائے کوٹ تھاکوٹ منصوبے کی تعمیر کی رفتار کو تیز کریں گے ۔ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خنجراب پورٹ پورا سال کھلی رہے ۔ گوادر بندرگاہ کی صلاحیت کو مکمل طور پر اجاگر کریں گے ۔ چینی کاروباری اداروں کو خصوصی اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کی حمایت کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ابھرتے ہوئے شعبوں کے لحاظ سے فریقوں نے اتفاق کیا کہ کان کنی کے تعاون کو صنعتی پیشرفت کے طور پر ترجیح دیں گے ۔ سمندر میں گیس اور تیل کے وسائل کی تلاش اور ترقی میں تعاون کو فروغ دیں گے اور صاف توانائی ، مصنوعی ذہانت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور خلا میں تعاون کو آگے بڑھائیں گے ۔ ان ٹھوس اقدامات سے یقینی طور پر دونوں ممالک کے درمیان عملی تعاون مضبوط ہو گا اور اس میں گہرائی اور وسعت پیدا ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے کے دوران سلامتی کے تعاون کو مزید مضبوط بنایا گیا ہے، یہ دورہ چھبیس مارچ میں بشام دہشت گرد حملے کے بعد ہوا ، دورے میں سلامتی کے معاملات کو بہت اہمیت دی گئی ۔ صدر شی جن پنگ نے واضح طور پر کہا کہ چین دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی حمایت کرتا ہے امید ہے کہ پاکستان محفوظ اور مستحکم کاروباری ماحول کی تشکیل جاری رکھے گا ۔ پاکستان چینی منصوبوں، اداروں اور شہریوں کے تحفظ کو موثر طریقے سے یقینی بنائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا آظہار کیا کہ پاکستان واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو سخت سزا دے گا اور تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی افراد اور اداروں کا تحفظ کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے مشترکہ بیان میں ایک بار پھر زور دیا کہ زیرو ٹالیرنس کے ذریعے ہر قسم کی دہشت گردی سے نمٹیں گے اور انسداد دہشت گردی اور سلامتی تعاون کو مزید مضبوط بنائیں گے ۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے اتفاق رائے اور متعلقہ محکموں کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے سلامتی تعاون مزید بڑھے گا ۔ انہوں نے کہا کہ
چین میں ایک محاورہ ہے کہ تعیناتی 10 فیصد کی اہمیت رکھتی ہے جبکہ عمل درامد کی اہمیت 90 فیصد ہوتی ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس دورے کے ذریعے دونوں ممالک کے رہنماؤں نے مستقبل میں چین اور پاکستان کے تعلقات کی ترقی کے لیے بلیو پرنٹ تیار کیا، راہنمائی فراہم کی ہے اور اقدامات کیے ہیں ۔ ہمیں بس ان پر مرحلہ وار عمل درامد کرنا ہے ۔ ہمیں اس بات پر شدید خوشی ہے کہ گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے دورہ چین کے نتائج پر عمل درآمد کے لیے ذاتی طور پر رہنمائی اور زور دیتے رہے ہیں جس میں انہوں نے مختلف پاکستانی محکموں اور چینی سفارتخانے کی شرکت کی نہ صرف صدارت کی بلکہ اپنے اختتام ہفتہ کا وقت اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت کرنے، کام کی پیش رفت کو ترتیب دینے اور مخصوص انتظامات کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ یہ ہمیں اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ہمارے فالو اپ کام میں مضبوط ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اس دورے کے دوران کیے گئے فیصلوں کو حقیقت بنا کر دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں گے۔چین پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ اس دورے کے نتائج پر عمل درآمد کو نئے دور میں مشترکہ مستقبل کے ساتھ قریبی چین پاکستان کمیونٹی کی تعمیر کو تیز کرنے اور دونوں لوگوں کو مؤثر طریقے سے فائدہ پہنچانے کے موقع کے طور پر لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یقیناً چین اور پاکستان کے تعلقات صرف ان پہلوؤں تک محدود نہیں۔ ہم پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان چین کی قومی یک جہتی کے لیے تمام کوششوں کی مضبوطی سے حمایت کرتا ہے اور سنکیانگ، تبت، ہانگ کانگ اور جنوبی چین کےسمندر میں چین کے موقف اور تجاویز کی حمایت کرتا ہے ۔ چینی سفیر نے کہا کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے پاکستان کی حمایت جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ایس ای او کی سربراہی سنبھال لی ہے اور پاکستان جلد ہی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے اجلاس کی میزبانی کرے گا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر خدمات انجام دے گا۔ اقوام متحدہ اور ایس سی او کے تحت تعاون کو وسعت دیں گے اور حقیقی کثیر الجہتی اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کا مشترکہ تحفظ کریں گے ۔”گلوبل ساؤتھ” کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے چین مستقبل میں "گلوبل ساؤتھ” کے فریم ورک میں اپناکردار کیسے ادا کرے گا؟کے سوال کے جواب میں جیانگ ذیدونگ نے کہا کہ
چین دنیا کا سب سے بڑا ترقی پذیر ملک ہے اور گلوبل ساؤتھ کیمپ کا رکن ہے، گلوبل ساوتھ ابھرتی ہوئی مارکیٹ، ممالک اور ترقی پذیر ممالک کا مجموعہ ہے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک نے گزشتہ 20 سالوں میں عالمی اقتصادی ترقی میں 80 فیصد حصہ ڈالا ۔ گزشتہ 40 سالوں میں ان کا جی ڈی پی کا عالمی حصہ 24 فیصد سے 40 فیصد تک پہنچا جس نے دنیا کی معیشت کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا، انہوں نے کہا کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک اب بین الاقوامی سیاسی اسٹیج پر خاموش اکثریت نہیں رہے بلکہ بین الاقوامی نظام کی تبدیلیوں کو امید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔صدر شی جن پنگ نے اس کانفرنس میں نشاندہی کی کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو برابری کے معاشرے کی تعمیر میں سب سے آگے بڑھنا چاہیے اور انہوں نے گلوبل ساؤتھ کے جامعہ تعاون کی انیشیٹیو کی تجاویز پیش کیں، ہم تمام ممالک کے ساتھ اس اہم انیشیٹو پر بھرپور عمل درآمد کریں گے، ساؤتھ، ساؤتھ اور ساؤتھ نارتھ تعاون اور بنی نوع انسان کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے نئے خدمات پیش کریں گی۔انہوں نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے گلوبل ساؤتھ کے تعاون کی حمایت کے لیے اقدامات کا اعلان کیا، ان میں گلوبل ساؤتھ ریسرچ سنٹر کا قیام شامل ہے ۔ آئندہ پانچ سالوں میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو 1,000 پرامن بقائے باہمی ایکسی لینس اسکالرشپ اور ایک لاکھ تربیتی مواقع فراہم کریں گے جو چین کے پختہ عزم کو ظاہر کرتا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سمیت گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں اور گلوبل ساؤتھ کی مشترکہ ترقی، اتحاد اور تعاون کو فروغ دیں۔