تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تلہ گنگ، طالع آزماؤں کی سیاسی آویزش کی نذر
تحریر: ڈاکٹر ایم کے ریحان
پہلی قسط:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تلہ گنگ کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ اس علاقہ کے مکینوں کی عسکری،قومی اداروں میں گراں قدر خدمات قابل فخر ہیں۔ مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ سیاسی حاشیہ برداروں اور طالع آزما اس علاقہ کی نئی تہذیب کو معدوم اور نئے تشخص کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں (خدا اِن دُشمنان عوام کو منصو رومظفر نہ کرے،بلکہ سیدھی ڈگر پر چلنے کو توفیق دے)۔فارسی کی کہاوت ہے کہ”دشمن اگر قوی است۔نگہبان قوی تر است،نیاز ی بہ معذرت خواہی نیست“ترجمہ: اگر دشمن طاقت ور ہے تو، خدا اس سے بھی زیادہ روئیں تن اور طاقتور ہے۔لہذا پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں)۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بناکرعقل و شعور بخشا۔لیکن ہماری بد قستمی ہے کہ ہم قدرت کی عطا کردہ نعمت فہم و فراست سے کام نہیں لیتے۔ بلکہ اپنے نفس اور سیاسی طالع آزماؤں کے حلقہ بگوش ہو کر منقاد اور تابع غلامی کا طوق پہننے کو ترجیع دیتے ہیں، جس سے ہماری عزت و نفس یا حقوق مجروح ہوجاتے ہیں۔ مگر بحثیت انسان ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی نسل پا افتادہ کوسیاسی زنجیربستہ سے چھٹکارا دلائیں۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہرانسان عقل و شعورکی طاقت اورصلاحیت کو بروئے کار لائے۔مگر فی زمانہ میں سیاسی مفاد،حرص و طمع،آنا پرستی اور ضد کے پُرخار راستوں پر چل کر اپنی نئی نسل کو محفوظ اور روشن مستقبل دینے قا صر ہیں۔بلکہ یوں کہیے کہ موروثی، وڈیرہ شاہی اور جا گیر دارانہ ازم کی تابعداری ہمیں لے ڈوبی ہے۔جنہوں نے ذاتی مفادات کو ترجیع دیکر عوامی مفادات کو بلڈوز کر نا وطیرہ بنا لیا ہے۔جسکی زندہ مثال اکتوبر 2022 میں ضلع تلہ گنگ کے بننے کے فنکشن میں شمولیت نہ کرکے غیر ذمہ داری اور عوام دشمنی کا ثبوت دیا۔حالانکہ تحصیل تلہ گنگ صواب اندیش اور اصابت(معقول سوچ) کی سیاسی قائدین نے اپنی فکری اور زہنی قوتوں سے صواب نما د فیصلہ کر دیکھایا۔ یوں تقریباً اڑھائی سو سال بعدایک ”دیرینہ تعمیر الرویا اور ضلع تلہ گنگ کاا تمام“پایہ تکمیل کوپہنچا۔ ریوینو بورڈ لاہور نوٹیفکشن نمبر2655-2022/5090-DIR(DEV&G مورخہ 14 اکتوبر2022 کوتحصیل تلہ گنگ اور لاوہ کے عوام کے ”دیرینہ خواب کی تعبیرہوئی اورضلع تلہ گنگ کی تکمیل“ مکمل ہوئی۔ اورکہنہ مشق گرم و سرد چشیدہ اور دقیانوسی سوچ سے خلاصی بھی ہوئی۔جنہوں نے صحیح معنوں میں حق آشنائی کو تسلیم کیا اورحق آسائش اور حق نمائندگی اداکیا۔جبکہ عوام اِس ممنونیت اوراحسان مندی کے احسان شناسی(شکر گزار) ہیں۔جبکہ سابقہ ادوار میں عوام کے اس مطالبے کودریوئزہ گری اور گورکھ دھندا سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا۔کیونکہ اس مطالبہ کے پورا ہونے سے انہیں اپنی ”سیاسی دردشا“ کا جنازہ نکلنے کا غم آشام بھی شامل تھا)۔اس پژمردگی اور انقباض(دل گرفتگی) پرماسوائے ماتم کے
کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
مگر شو مئی قسمت سے شہیدوں،غازیوں کی دھرتی سے پنجاب کی نگران حکومتی کا بینہ کے 3 9.2.202 میں ”نہ آؤدیکھا یا تاؤ“ بلکہ نادیدہ قوتوں کے ایما ء پر عوامی مفادات کو زندہ درگور کر دیا۔جبکہ اسکی عمل درآمدی میں ریونیوبور ڈلاہور کے نوٹیفیکشن نمبر No.267.2023/0960.DIR(DEV&G) مورخہ 15 فروری 2023 کو یہ کہا گیا کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے 22 جنوری 2023 کو تمام تبادلوں۔نئی بھرتی پرپابندی عائد کر دی ہے۔اس لیے نو زائیدہ ضلع تلہ گنگ کو اگلے الیکشن تک معطل کیاگیا۔ساتھ ہی تلہ گنگ انتظامیہ کو ضلع چکوال کے زیر عتاب کر دیا گیا۔جو انتہائی دکھ اور تشویش ناکیوں اور فکر ضرور دامن گیر ہو گیا۔کیونکہ150سال بعد دیرینہ خواب کی تکمیل ہوئی تھی۔ مگر24 فروری2023 کو وزیر اعظم شہبازشریف کے نیوز کانفرس میں تلہ گنگ کے عوام کی داررسی اور مداوا کی بجائے یہ اعلان زخم پر نمک پاشی کا کام کر گیاکہ آئندہ دو سال کوئی نیاانتظامی یونٹ”ڈویژن،ضلع،تحصیل“ نہیں بنائیں جائیں گے اور صوبے بھی وفاقی سفارشات میں عمل کریں گے۔ اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ کیا اس حکمنامے کا اطلاق پی ٹی آئی دور میں بنائے گئے اضلاع پر بھی لاگو ہوگا جس پر وزیر اعظم نے آخری پیرا گراف کا زکر کر دیا۔(یعنی سابقہ حکومت کے بنائے گئے ڈویژن اور اضلاع کو ختم کر دیا گیا)۔یوں مسلم لیگ نون کو1985 سے لیکر اب تک عنان اقتدارکاسہرا باندھنے والے تلہ گنگیوں کے بنیادی حقوق کو سیاست کی بھٹی میں بھون کر خاکستر کر دیا گیا۔جو عوامی رائے عامہ کے ساتھ کھلم کھلا سیاسی مذاق اور مفادانی عنادپرستی کے مسخرا پن کابین ثبوت ہے۔ اس اعلان کو ”لرزش یا لغرش“(ّبھول چوک) کا لبادہ نہیں اوڑھا جا سکتا۔بلکہ اس سیاسی انا،بد حواسی اور سیاسی مخالفین سے عناد، شکر رنجی اور معاندت کے زہر آلودہ سیاسی خنجرکاآزادانہ استعمال سے ہونے والوں زخم مدلل نہیں ہو سکتے۔سوشل میڈیا کے مطابق تلہ گنگ میں دفاتر کی بندش کے ساتھ چکوال سے دوبارہ منسلک ہونے ہمارے نمائندوں نے صرف چپ ہی نہیں سادھ لی اور نہ ہی لب کوشائی اور صمت کا روزہ توڑا۔ بلکہ گھر ہی گوشہ نشینی میں محو خواب رہے۔ یوں انکی عوام دوستی یا دشمنی عیاں ہو گئی۔(جسکا فیصلہ آمدہ لیکشن میں ووٹروں کی عدالت میں متوقع ہے)۔مقام سوچ یہ ہے کہ ہمارے نمائندے صرف عنان اقتدارکی تگ و دو تک عوام سے پیار کرتے ہیں۔بعد ازاں عوام کے کسی مفاداتی عمل یا مسائل کے گرداب سے نکالنے سے وہ بری ذمہ ہیں۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے، تو آرٹیکل پڑھنے سے قبل اور بغیر الفاظ چبائے اور نگلے میری معذرت قبول ہو۔اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ رٹ پٹیشن دائر ہو چکی ہے۔کہ منتخب کابینہ کی منظور کردہ ڈویژن یاضلع کو ختم یا معطل کاکرنے عبوری حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ بقول شاعر
؎ تمہارافرض پہلا تو یہ ہےتوراہ محبت پر چلتے
ا رے ظالم میری خدمت کا مذاق تونہ اڑاتے
٭مسلم لیگ ن کا لالی پوپ الیکشن 2013کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے”گورنمنٹ ڈگری کالج میں جلسہ عام میں اہل تلہ گنگ سے چار وعدے کیے۔ جن میں تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دینا۔2۔ یونیورسٹی کا قیام3.۔ بلکسر انٹر چینج سے ڈیرہ اسماعیل خان تک موٹر وئے کی تعمیر۔4۔ تلہ گنگ میں جدید ہسپتال کی تعمیر تھی۔ پھر 2013 کے ضمنی الیکشن میں حمزہ شہباز نے یہی وعدے دہرائے۔مگر نون لیگ کی حکومت نے لارے لپے اور لالی پاپ دیکر ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر گامزن رہی۔مگر اب مفاد عامہ کے منصوبے کوزندہ درگور کا سہرا بھی اسی سے سر رہا۔ 2103 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے نامزدگورنر پنجاب لطیف کھوسو نے گورنمنٹ کالج کے جلسہ میں برملا اعلان کیا۔کہ میں مرکزی حکومت کو”ضلع تلہ گنگ“ بنانے کی سفارش کرونگا۔جو سراسر دروغ گوئی پر مبنی تھا۔کیونکہ ضلع بنانا مرکز کانہیں صوبائی اختیار میں ہے۔بہرحال سیاسیوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ ووٹروں کودھڑے بندی کا سوپ پلا کر اُنکی دکھتی رگ دَباکر اَپنا اُلو سیدھا کرتے آئے ہیں۔۔کاش تلہ گنگ کے عوام کے ساتھ سماجی ظلم و ستم،ناانصافی کرنے والے تاریخی حقائق مدنظر رکھتے۔ عوام الناس بالخصو ص نوجوان نسل کیلئے تلہ گنگ کی سیاست کے مخفی حقائق منظر عام لانا ضروری ہے۔تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔جن سے ہرووٹر کی
آشنائی ضروری۔1970سے لیکر 2018 تک سیاسی روداد اگلی قسط میں ملاحظہ کریں) ۔۔۔جاری…….